اسلام آباد کی تپتی دوپہر میں مئی کی دھوپ میں ہوا گرم ہوکر ہلکی ہوئی اور آسمان کی طرف بلند ہوئی. اس کی جگہ زمین پر خالی ہوئی تو اس خلا کو بھرنے کے لیے ہوائیں آنا شروع ہوئیں. ہوا میں تندی تھی۔ طوفان کی سی صورتحال تھی. ایف نائن کے جناح پارک میں ایک میلہ سا لگا تھا. "فیوچر فیسٹ" کے نام سے یہ جو ایک میلہ سا لگا تھا اس میں وہ تمام لوگ تھے جنھوں نے آئی ٹی کے شعبے میں نیا کام کیا تھا، کوئی ایپ یا سافٹ ویئر بنایا تھا. انھوں نے اپنے اپنے سٹال لگائے تھے. یہ میلہ ایک بڑے خیمے کے اندر ہو رہا تھا. بڑی بڑی اے سی مشینیں چل کر اس خیمے کے اندرونی ماحول کو ٹھنڈا رکھے ہوئی تھیں. باہر سے آتی ٹھنڈی ہوا سے حبس ختم ہوتا تھا. یہاں خاصی بھیڑ تھی. مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آئے تھے. اس میلے کو ترتیب دینے والوں نے ہماری یونیورسٹی کو شرکت کی دعوت دی تھی، اور ہم اسی صورت اس میلے میں دندناتے پھر رہے تھے.
باہر سے دھول زدہ، گرمی میں تپتا، جنریٹر اور اے سی مشینوں کی بری آوازوں میں گھرے اس ماحول میں لگے خیموں کے اندر صورتحال بڑی پرسکون تھی۔ روشنیاں جھلملاتی اور موسیقی کانوں سے ٹکراتی تھی. ہماری یونیورسٹی کی تین بسیں آئی تھیں. تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ و طالبات اس میلے میں مانسہرہ سے اسلام آباد آئے تھے، اور اب اس گرمی میں پیاسے پرندوں کی طرح منہ کھولے گھوم رہے تھے کہ یہ مانسہرہ کے سبزے میں کوکتے پرندے تھے، جو اسلام آباد کی آب و ہوا میں چہک نہیں سکتے تھے.
یہیں میری ملاقات نفیس سے ہوئی. یہ ہماری یونیورسٹی سے گیا تھا. چھوٹے قد والا یہ "سپیشل پرسن سٹوڈنٹ " اس دن کے بعد میرے دل کے بہت قریب رہنے لگا. جن دوستوں کے ساتھ یہ تھا، انھوں نے اسے مجھے تھما دیا کہ بقول ان کے .. انھوں نے باہر "حوا خوری" کرنا تھی، اور کچھ ویڈیوز بنانی تھیں، جبکہ مجھے باہر کے ماحول سے کوفت ہورہی تھی. انھوں نے نفیس بھائی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھمایا کہ ہمارے آنے تک یہ آپ کے ساتھ ہوگا. میں نے ان کی انگلی پکڑی تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھ پر کسی چھوٹے بچے کی رکھوالی کی ذمہ داری آگئی ہو. نفیس بھائی کی چھوٹی چھوٹی موٹی انگلیاں تھیں. میں نے ان سے تعارف کرایا. ان کے ساتھ ایسے ٹریٹ کیا کہ انھیں ہرگز یہ محسوس نہ ہو کہ وہ ایک سپیشل پرسن ہیں۔ میں نے ان کی انگلی تھامی اور اس میلے میں گھومنے لگا. یہاں مختلف سٹال پہ متعلقہ سٹالز والوں نے تحائف بھی رکھے تھے۔ میں مختلف سٹال پہ گیا۔ نفیس بھائی میرے ساتھ ہوتے۔ میں سٹال پہ جاتا اور گویا ہوتا۔ "I am looking for a special person gift" وہ کوئی نہ کوئی تحفہ نفیس بھائی کی طرف بڑھا دیتے۔ کوئی قلم دیتا، کوئی اپنی کمپنی کی کیپ پہنا دیتا، کوئی گھڑی دیتا، کسی نے ڈائری دی، ہم وہاں بہت گھومے، گیم کھیلی، تصویریں بنائی، کئی لوگوں نے نفیس بھائی کے ساتھ تصویر بنائی۔
اسلام آباد کے اس میلے کے بعد جب ہماری بسیں مانسہرہ کی طرف روانہ ہوئیں. اس میں بیٹھے پرندے تھکاوٹ سے اونگھ رہے تھے تو یونیورسٹی پہنچنے کے بعد باقی پرندوں کا تو پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے ، مگر میری اور نفیس بھائی کی اچھی دوستی ہوگئی، جو ان سے بڑی محبت میں بدل گئی۔ وہ کہیں نظر آتے تو میں انھیں پکار کر روکتا اور وہ "شاہ صاحب" کہہ کر رک جاتے۔ میں ان کے پاس جاکر بیٹھ کر ان سے گلے ملتا۔ یہ تعلق آج بھی استوار ہے۔ یہ پرندے آج بھی آپس میں دوست ہیں۔ اگرچہ الگ موسموں اور الگ مقامات کے پرندے ہیں مگر کبھی اڑان ساتھ بھر لیتے ہیں۔
مجھے نفیس بھائی سے اتنی ہی عقیدت و محبت ہے۔ میں نے ایسا بلند حوصلہ "سپیشل پرسن" نوجوان نہیں دیکھا۔ نفیس بھائی کو اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اللہ کے فیصلوں پہ خوش ہیں اور وہ زندگی بہت پیاری گزار رہے ہیں۔ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور زندگی کے باقی معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے بڑے مداح ہیں۔ یہ حوصلے مزید بلند ہوں، آمین۔
تبصرہ لکھیے