فضل کریم فضلی کا شمار پاک و ہند کے ان فلم سازوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک کی فلمی صنعت میں کئی نئے اداکاروں کو متعارف کرایا، جو بعد میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے جن میں محمد علی اور زیبا بھی شامل تھے۔
1962 میں انہوں نے فلم "چراغ جلتا رہا" میں محمد علی کو ولن کے رول میں متعارف کرایا، جب کہ ناظم آباد کی رہائشی لڑکی شاہین کو "زیبا" کے نام سے اس فلم میں ہیروئین کے طور پر کاسٹ کیا. یہ اداکارہ زیبا اور محمد علی کی فلمی زندگی کی ابتدا تھی۔ زیبا کے مقابل ایک مصور عارف کو فلم میں بطور ہیرو لیا۔ ناظم آباد گورنمنٹ کالج کے عقب میں مشرق سینٹر نامی عمارت میں کئی فلم سازوں اور اسٹیج ڈرامہ پروڈیوسرز نے اپنے دفاتر بنائے ہوئے تھے، جن میں بھارت کے معروف فلم ساز اور فلم "ہم لوگ" کے تخلیق کار، ضیا سرحدی اور فضل کریم فضلی کی فلم کمپنی کے دفاتر بھی اسی بلڈنگ کے گرائونڈ فلور پر تھے۔
ضیا سرحدی کے ساتھ میری اکثر بیٹھک رہتی تھی لیکن وہ اپنی انقلابی طبیعت کی وجہ سے خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار پر تھے ، اس لئے دفتر سے اکثر غائب رہتے تھے۔ ضیا سرحدی کے صاحب زادے خیام سرحدی، پوتے زرغون سرحدی اور پوتی ژالے سرحدی کا شمار بھی ملک کے معروف اداکاروں میں رہا ہے۔ اس فلم کے بعد 1967 میں فضل کریم فضلی نے اداکارہ زیبا کے ساتھ سید علی طاہر جعفری کو طاہر علی خان کے نام سے زیبا کے مقابل اپنی دوسری فلم " وقت کی پکار" میں ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا۔ فلم تو فلاپ ہوگئی اور اداکار طاہر بھی ناکام ہیرو ثابت ہوئے۔ لیکن انہوں نے اپنی ناکامی کو زندگی کا روگ نہیں بنایا۔
اس کے بعد بھی انہوں نے کئی فلموں میں کام کیا لیکن وہ ریلیز نہیں ہوسکیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اداکار طاہر نے سقوط ڈھاکا کے رونما ہونے سے قبل 1970 تک مشرقی پاکستان میں بننے والی کئی اردو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن 1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ فلمیں بھی جغرافیائی لکیر کی بھینٹ چڑھ گئیں اور کبھی ریلیز نہ ہوسکی۔ طاہر نے نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ "ہندو مائیتھالوجی" پر اپنی ذاتی فلم " سنگتراش" کا آغاز کیا۔ اس فلم کی کہانی انہوں نے خود تحریر کی تھی جب کہ فلم ساز، ہدایتکار اور ہیرو وہ خود تھے۔ اس فلم میں طلعت اقبال کی بیوی سنبل ہیروئین جب کہ سٹی ریلوے کالونی کی رہائشی لڑکی فرزانہ کو ریٹا کے نام سے سائیڈ ہیروئین کاسٹ کیا۔
اس فلم کے سارے اداکار نووارد تھے جن میں ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر محمود صدیقی کو بڑے پجاری، دائود چورنگی پر ایک جنرل اسٹور کا مالک خلیل جبران ولن اور کے ایریا کے دنداں ساز سائیں اختر کو کیریکٹر رول دیا گیا۔ فلم میں ایک نئے گلوکار سفیر احمد کو گائیکی کا موقع دیا گیا اور انہوں نے "شادیانے خوشی کے بجائو، تم کو حق ہے کہ خوشیاں منائو" ، زندگی آج دلہن بنے گی، تم جنازے کو میرے سجائو" گایا۔ سفیر کی صورت میں فلمی دنیا کو "رفیع" جیسی آواز مل گئی تھی لیکن اسے آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ فلم کے دیگر گلوکاروں میں مہدی حسن اور نور جہاں بھی شامل تھے جن کی آواز میں گانے طاہر، ریٹا اور سنبل پر فلمائے گئے۔ فلم کی شوٹنگ ماڈرن فلم اسٹوڈیو اور کھادیجی فال پر ہوئی جس کی فلم بندی اس دور کے معروف کیمرہ مین ماسٹر غلام محمد نے کی تھی۔ اس کی ایڈیٹنگ انٹرنیشنل فلم اسٹوڈیو شفیق موڑ پر ہوئی۔
یہ ایک مزدور فن کار کی فلم تھی۔ فلم کی دیوی و دیوتائوں کے مجسمے طاہر نے خود بنائے تھے جن میں سے "کنہیا جی" کا مجسمہ ایک عشرے سے زائد عرصے تک ماڈرن فلم اسٹوڈیو کے مونالیزا پکچرز کے آفس میں رکھا رہا۔ طاہر نے یہ فلم 1975 میں شروع کی تھی جب کہ 1983 میں مکمل ہوئی تھی۔ میں اس دور میں انگریزی روزنامہ "مارننگ نیوز" میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازم تھا، اس کے ساتھ فلمی میگزین "فلم اور فیشن" کے لئے بھی رپورٹنگ کرتا تھا اس سلسلے میں کراچی کے تینوں فلم اسٹوڈیوز، ایسٹرن، ماڈرن اور چوہدری عبدالروئوف (سی اے روئوف) کے انٹرنیشنل اسٹوڈیو میں بھی جانا ہوتا تھا۔
ماڈرن اسٹوڈیو میں طاہر علی خان سے دوستی ہوگئی تھی جب کہ اثر ضیائی اور ہدایتکار ابن علی کے ساتھ بھی بیٹھک رہتی تھی۔ طاہر نے مجھے بھی اپنی فلم میں کام کرنے کی آفر کی تھی لیکن وقت کی تنگی کے باعث میں قبول نہیں کرسکا۔ طاہر نے اپنی کمائی کا ایک ایک پیسہ اس فلم پر خرچ کردیا۔ لیکن 1977 میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرکے اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا۔ طاہر کی فلم ہندو مائیتھالوجی پر مبنی کہانی ہونے کی وجہ سے مرکزی سینسر بورڈ سے مسترد کردی گئی حالانکہ اس سے چند سال قبل اسی موضوع پر "لاکھوں میں ایک" اور اس کے کئی سال بعد وحید مراد اور رانی کی فلم "ناگ منی" ریلیز ہوئی تھیں۔ طاہر کی فلم کو آج تک سینسر سرٹیفیکٹ نہیں مل سکا، فلم کی ریلیں سینسر بورڈ کے ڈبوں میں پڑے پڑے گل سڑ گئیں۔
سائیں اختر، محمود صدیقی، خلیل جبران ، سنبل کا انتقال ہوچکا ہے، ریٹا گمنامی کے اندھیرے میں گم ہوگئی ہے۔طاہر علی خان جو پہلے ماڈل کالونی میں فلم اسٹار ابراہیم نفیس مرحوم کے بنگلے کے قریب رہائش پذیر تھے، اب باتھ آئی لینڈ شفٹ ہوگئے ہیں اور کافی عرصے سے علیل ہیں۔
تبصرہ لکھیے