600x314

کیا لکھنے کے لیے مطالعہ کافی ہے؟ – انس محسن

کیا کاغذ کے سینہ پر الفاظ و حروف سے مینا کاری کرنے، استعارات و تلمیحات کے ذریعہ پھول پتیوں میں رنگ بھرنے، مترادفات و اضداد کے امتزاج سے تحریر کو مزین کرنے اور احساسات و جذبات کو لفظوں کے ذریعہ سرمدیت کے پہرہن میں قید کرنے لیے کے لیے صرف کتب بینی کافی ہے؟

اگر یہ سوال کسی فن تحریر کے ماہر سے کیا جائے تو جواب ہوگا "نہیں”۔ تحریر وہ چیز ہے جو ہمیشہ زندہ و جاوداں ہوتی ہے، ایک تازہ دم صبح کی مانند نہایت واضح، روشن، پر کیف ہوتی ہے۔ اگر چہ وہ ماضی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے لیکن اس میں ایک عہد کا ادب، اس کی چاشنی، اس کا لب و لہجہ سانس لے رہا ہوتا ہے۔

تحریر صرف بول چال اور ظاہری گفتگو کا نام نہیں بلکہ تحریر وہ فن ہے جس میں احوالِ دروں، کیفیات و تاثرات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر صفحہ قرطاس پر نقش کردیا جاتا ہے اور ارد گرد موجود چیزوں کی قلم کے ذریعہ ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا ان چیزوں کو اپنے سے قریب اور محسوس سمجھنے لگتا ہے۔

اگر آپ اپنی تحریر کو کو نئے عہد اور اس کے طرز و اسلوب سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ اپنے اردگرد موجود لوگوں کے بدلتے جذبات، درختوں کی سرسراہٹ، آسمان کی وسعت، زمین کی گہرائی، اٹکھیلیاں کرتی بدلیوں، قوس قزح کے رنگوں سے لیکر باد نسیم کے حیات بخش احساس، لوگوں کے چہروں کی جھریوں میں چھپے غم و اندوہ تک ہر چیز کا بغور مشاہدہ کریں، سمجھیں، محسوس کریں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ایک تحریر میں زندگی کا ربگ بھرتے ہیں۔

دوران تحریر اگر آپ کی آنکھیں آپ کے ذہن کو مواد فراہم نہیں کر رہیں تو اس کا مطلب ہےکہ آپ زمانے اور اس کے طور طریقے سے ہٹ کر کچھ لکھنا چاہ رہے ہیں لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اپنے کینوس پر از کار رفتہ رنگوں کو بکھیرنا چاہتے ہیں جن کی روشنیاں اس دور میں قدامت زدہ اور فرسودہ ہو گئی ہیں۔

مصنف کے بارے میں

ویب ڈیسک

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment