ہوم << آن لائن الیکٹرانک سٹور، نوسربازوں کا کامیاب کاروبار - ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

آن لائن الیکٹرانک سٹور، نوسربازوں کا کامیاب کاروبار - ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

چودہ سولر پلیٹس۔ انورٹر۔ چھ بیٹر ی۔ مکمل سیٹ صرف ایک لاکھ روپے میں۔۔۔۔۔۔۔۔ الیکٹرک سٹور کے نام سے بنے فیس بک پیج پر یہ اشتہار دیکھا تو اور اس سولر پلیٹس سیٹ کی اتنی کم قیمت دیکھی تو صاف پتہ چل گیا کہ فراڈ کی ایک نئی قسم نے جنم لے لیا ہے۔ ویسے تو آج کل سوشل میڈیا پر جس قدر فراڈ پھیلا ہوا ہے اور لٹنے کے بعد بھی لوگ جس طرح دوبارہ ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرلٹنے کے لئے تیا ر ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر دوسرا شخص اس آسان کاروبار میں شامل ہو چکا ہے۔ جو روزانہ ان شہریوں کو لوٹتے ہیں اور یہ شہری بھی اتنے سادہ لوح ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے ایک بار نہیں۔ بیسیوں با ر ڈسے جا رہے ہیں اور پھر بھی انکے منہ سے اف تک نہیں نکلتی۔بہر حال اشتہار دیکھا تو رگ جاسوسی پھڑک اٹھی۔ وہی رگ۔ جو ابن صفی اور مظہر کلیم کے عمران سیریز پر ناول پڑھ پڑھ کر کافی صحت مند و توانا ہونے کے بعد اب پھر کمزوری کا شکار تھی۔ سوچا کہ چلیں ان کے بارے مزید تفتیش کرتے ہیں۔ انکا طریقہ واردات دیکھتے ہیں۔ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آخر ان کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں ہو پا رہی۔ بہر حال۔ پیج کے ایڈمن کی ہدایات کے مطابق ایک سائیڈ پر بنے وٹس ایپ کے آئیکن Iconپر کلک کیا تو وٹس ایپ کا پیج کھل گیا۔ اس وٹس ایپ پیج کا سیل نمبر تھا 03314383169.۔اور اس پیج پر لکھا تھا۔Hello can i get more information on this۔ یعنی کہ اگر ہم اس پیغام کو کلک کرتے تو ہمیں مزید معلومات مل سکتی تھیں۔ چنانچہ میں نے اس پیغام کو کلک کر دیا۔اب جو پیغام مجھے وصول ہوا وہ حرف بحرف یوں تھا۔ اسلام علیکم!پیارے دوستو۔ موبائل اور الیکٹرونکس چیزیں خریدنے کے لئے سب سے پہلے ہمارا وٹس ایپ گروپ جوائن کریں۔ ہم گروپ میں روزانہ کی بنیاد پر موبائلوں کے نئے ریٹ اور الیکٹرونک چیزوں کے ریٹ بھیجتے ہیں۔ آرڈر کرنے کے لئے ہمارا گروپ جوائن کرنا لازمی ہے۔گروپ لنک ابھی کلک کریں۔ آرڈر کے لئے۔(نیچے گروپ لنک دیا گیا تھا)۔ اس پیغام کے نیچے ایک نوٹ دیا گیا تھا کہ پیارے دوستوں! ہم اس نمبر پر آپ کی چیٹ کا جواب نہیں دیتے۔ اس لئے گروپ جوائن کریں۔ گروپ میں موجود ایڈمن کو موبائلز کا آرڈر دیں۔

چلیں جی! لنک تو آگیا۔ لیکن ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کلک کرنے سے میرا سارا موبائل ڈیٹا اور میرے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اس نوسر باز کے پاس چلی جائیں اور پھر میں انتظار کروں اپنے بینک اکاؤنٹ کے خالی ہونے کا۔ چنانچہ اس لنک کو فوری طور پر کلک کرنے کا ارادہ ملتوی کیا اور یہ کام اگلے روز پر چھوڑ دیا۔ اس دوران ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ وٹس ایپ والے تو اپنی ایپ کی سیکورٹی کی سو فیصد گارنٹی دیتے ہیں۔ اس لئے ڈیٹا چوری والی باتیں ہوائی باتیں ہوں گی۔چنانچہ ہمت کر کے لنک پر کلک کر ہی دیا۔لنک پر کلک کرنا تھا کہ الیکٹرونک کی اشیاء کا خزانہ آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔ اس قدر شاندار اشیاء اور اس قدر سستی کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اپنے آپ کو چیک کرنے کی خاطر میں نے اپنی ران پر ایک زور دار چٹکی کاٹی اور پھر بڑی مشکل سے اپنی چیخ کو قابو کیا۔ یقین کریں اگر میں آ پ کو ان اشیاء کے ریٹ بتلا دوں تو آپ ابھی سب کام چھوڑ کر مجھ سے اس نوسر باز کا نمبر مانگنا شروع کر دیں گے۔۔لیکن۔۔خیر! کوئی بات نہیں۔۔ اگر کسی بات میں آپ کا بھلا ہوتا ہے تو مجھے آپ کی مدد کرنی چاہیے۔

دوستو!۔۔۔۔ذرا دل تھام کر بیٹھیں اور سنیں ان اشیاء کے ریٹس۔سونی ایل ای ڈی۔ 100انچ۔ قیمت صرف پینتیس ہزار روپے، میک پرو بک لیپ ٹاپ۔ بائیس ہزار روپے، چار ڈور ریفریجریٹر۔ تیس ہزار روپے،آئی فون۔ گیارہ پرو میکس۔ بیس ہزار روپے،ہنڈر 125۔پچاس ہزار روپے۔۔ بہرحال۔ آپ کا مزید دل کھٹا نہیں کرتے کیوں کہ اگر میں ان تمام اشیاء کی قیمتیں بتلانے پر آگیا تو شائد سارا دن گزر جائے لیکن میرا یہ کالم ختم نہ ہو۔۔ آپ نے چند اشیاء کی قیمتیں دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان لوگوں کا طریقہ واردات کیا ہے۔۔ بہر حال ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ ہر سب سے پہلے فیس بک پر اپنے پیج سے ایڈورٹائز کرتے ہیں۔ اور اس پیج پر مزید بات چیت نہیں کرتے۔ نہ آپ سے کچھ پوچھتے ہیں نہ آپ کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ بس صرف یہ کہتے ہیں کہ آپ وٹس ایپ گروپ میں آجائیں۔ پھر یہ جس وٹس ایپ گروپ میں آپ کو بلاتے ہیں۔ اس وٹس ایپ گروپ میں بھی آپ سے کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔ بس یہاں سے آپ کو ایک دوسرا گروپ جوائن کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس تیسرے گروپ میں بھی یہ کسی سوال کا جواب براہ راست نہیں دیتے۔ اگر آپ کا سوال ان کے مطلب کا ہے تو یہ کسی دوسرے گروپ کے ذریعے اس سوال کا جواب دیتے ہیں۔ مثلا ً اگر آپ نے ان سے کوئی چیز خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تو یہ آپ سے رابطہ اس چوتھے گروپ کے ذریعے رکھیں گے۔ ان کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز چاہیے اس کے آپ نے آدھے پیسے ایڈوانس بھیجنے ہیں۔ اور یہ بات یہ صاف صاف بتلاتے ہیں کہ خریدار ان سے کسی رعایت کا مطالبہ نہ کرے۔ کیش آن ڈیلوری نہیں ہوگی۔ آدھی قیمت ہر صورت پہلے اداکرنی ہوگی۔ اگر آپ ان کے ہاتھوں بے وقوف بن چکے ہیں اور آپ نے آدھے پیسے ایڈوانس دے دیے ہیں تو یہ آپ کو ویڈیو میں آپ کی خرید کردہ چیز کی پیکنگ ہوتے دکھائیں گے۔ پیکنگ کے بعد یہ ٹی سی ایس کی بکنگ کی(جعلی) رسید بھی آپ کو دکھلائیں گے اور جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو پھر یہ آپ سے ڈیمانڈ کریں گے کہ اب آپ بقایا پیسے بھی بھیج دیں تا کہ آپ کی خرید کردہ چیز آپ کو بھیج دی جائے۔ یہاں اگر کوئی شخص ان سے ٹیڑھا سا سوال پوچھ لے تو پھر وہ شخص اسی وقت بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر اگلا بندہ مجبور ہو کر بقیہ پیسے بھی بھجوا دے کہ آدھے پیسے تو بھجوا ہی چکا ہوں اب بقایا پیسوں کا رسک لے لیتا ہوں تو ایسی صورت میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مزید پیسے نکلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب عموماً تو یوں ہوتا ہے کہ اگلا شخص مزید بے وقوف بننے کو تیار نہیں ہوتا اور اپنے پیسے واپس مانگتا ہے۔ جس کے بعد یہ اس شخص سے اپنا رابطہ مکمل طور پر ختم کر دیتے ہیں۔ اور نیا شکار پھانسنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔۔

۔میں نے اس نوسر باز گروپ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں آپ سے ایک ایل ای ڈی خریدنا چاہتا ہوں لیکن آپ یہ تو بتلائیں کہ آپ اتنی سستی اشیاء کیسے دے رہے ہیں۔تو ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ اشیاء اسمگل کرتے ہیں اور ان پر ٹیکس نہیں دیتے۔ اب میں ان سے یہ اگلا سوال کرنا تو چاہتا تھا کہ بھائی یہ آپ ہونڈا 125کہاں سے سمگل کر کے اتنا سستا منگوا رہے ہیں۔لیکن میں نے یہ سوال اس لیے نہیں کیا کہ میں ان کو اپنے بارے زیادہ متوشش نہیں کرنا چاہتا تھا۔البتہ میں نے ان سے یہ ضرور پوچھا کہ بھائی! اگر آپ نے مجھ سے پیسے وصول کر کے ایل ای ڈی نہ بھجوائی تو پھر کیا ہو گا؟ تو میرا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے گروپ کو جوائن کیے رکھیں اور پھر دیکھیں کہ روزانہ کتنے کسٹمر ہمیں ایڈوانس پیسے بھیج کر مختلف اشیاء خرید رہے ہیں۔ اگلے دو تین روز میں، میں نے یہ دیکھا کہ ان کے گروپ میں روزانہ کم از کم تیس چالیس سے زائد لوگوں کے بھیجے گئے پیسوں کی رسیدیں لگائی جا رہی ہیں۔ اب اگر یہ رسیدیں جعلی تھیں تو تب تو ان پر تبصرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن اگر یہ رسیدیں اصلی تھیں تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دن میں کتنا کما رہے ہوں گے اور اس کمائی میں سے انتظامیہ و متعلقہ اداروں کا منہ بند رکھنے کے لیے کتنا خرچ کر رہے ہوں گے۔

بہر حال میں نے مزید اصلیت جاننے کے لئے ان سے سوال کیا کہ میں آپ کی شاپ پر خود آکر چیزیں خریدنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے اپنی شاپ کا ایڈریس بتلائیں تو انہوں نے مجھے عمران موبائلز شاپ نمبر45بسم اللہ مارکیٹ چمن کوئٹہ کا کارڈ بھیج دیا۔اس کارڈ پر تین سیل نمبر درج تھے۔ میں یہ تینوں سیل نمبر بھی یہاں لکھ رہاہوں۔ 0320-6259806, 03091098528,03010632489یہ کارڈ یقینا جعلی ہو گا کیوں کہ ان کو اندازہ ہو گا کہ کوئٹہ آنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بہر حال میں نے ان کو مزید کریدنے کی خاطر یہ فرمائش کی کہ میں ان کو پیسے بھجواتا ہوں لیکن مجھے جاز کیش کے بجائے کسی بینک کا اکاؤنٹ نمبر بھیجیں۔ تو انہوں نے مجھے فوراً جو حبیب بینک کا اکاؤنٹ نمبر بھیجا وہ یہ تھا۔ PK HABB 0164030076485333۔یہ اکاؤنٹ شہزا د خان نامی کسی بندے کا ہے۔

اب اس سے آپ ان کی دیدہ دلیری کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں کسی کا بھی ڈر نہیں ہے اور وہ ڈائریکٹ اپنے بینک اکاؤنٹ میں رقم منگوا رہے ہیں۔اسی طرح اس نے مجھے اپنا موبائل نمبر بھی بھیجا جو 03091726313تھا۔ ا س کے علاوہ مزید جو نمبر میں ان کے پیج سے حاصل کر سکا وہ یہ ہے۔03359942632. اس شخص نے مجھے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت اپنے آفس میں ہے اور لوگوں کے پارسل پیک کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اسے ویڈیو کال کروں تو وہ مجھے اپنا آفس دکھلاتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے اپنا آفس نہ دکھائے بلکہ اپنی شاپ دکھائے۔ جس کے بعد اس بندے سے میرا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اب یہ حقیقت ہے کہ جو طریقہ واردات ان لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں لوگوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ نیز اس بات کا بھی شک ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس کمائی سے ان لوگوں کا منہ بھی بندکر رہے ہیں جو ان کے کاروبار میں رکاوٹ ڈالنے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں نے تمام فون نمبر اور بینک اکاؤنٹ اس لئے شیئر کئے ہیں کہ اگر انتظامیہ غریب اور سادہ مزاج لوگوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہی تو کم از کم ہمیں یہ کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ پوسٹ اتنی شیئر کرنا چاہیے کہ کسی محب وطن، فرض شناس آفیسر کی نظروں میں آ سکے اور اس طرح شاید وہ آفیسر اس گروپ کو لگام ڈالنے میں اپنا کردار ادا کر سکے