لفظ محض سیاہ روشنائی سے لکھے گئے نشان نہیں ہوتے، یہ دل کی دھڑکن، آنکھوں کی چمک، جذبات کا دریا اور سوچوں کی پرواز ہوتے ہیں۔ جب کوئی شاعر قلم اٹھاتا ہے تو لفظ اس کے جذبات کا لباس پہن لیتے ہیں، جب کوئی ادیب تحریر کرتا ہے تو لفظ کسی کہانی کا روپ دھار لیتے ہیں، اور جب کوئی مفکر سوچتا ہے تو لفظ کسی فلسفے کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ لفظ ہی تو ہیں جو ہمیں وقت کے قیدی سے آزاد کر کے صدیوں پرانی محبتوں، شکستوں، کامیابیوں اور خوابوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ غالب کے اشعار میں جو سوز ہے، اقبال کی نظموں میں جو بیداری ہے، میر کے کلام میں جو درد ہے، وہ سب انہی لفظوں کی کرشمہ سازی ہے۔لفظوں کی دنیا میں ایک عجیب جادو ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں ایک فقیر بادشاہ بن سکتا ہے اور ایک بادشاہ فقیر۔ یہاں جذبات کو تراشا جاتا ہے، خیالات کو سنوارا جاتا ہے، اور خوابوں کو حقیقت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ لفظ محبت کی خوشبو میں بسے ہوتے ہیں، تو کبھی یہ جنگ کی للکار بن کر فضا میں گونجتے ہیں۔ کبھی یہ خاموشی کی زبان بنتے ہیں، تو کبھی انقلاب کی آہٹ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہر لفظ واقعی اثر رکھتا ہے؟ نہیں! صرف وہی لفظ امر ہوتے ہیں جو دل کی زمین پر اگتے ہیں، روح کی مٹی میں پروان چڑھتے ہیں، اور اخلاص کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ سچے لفظ صدیوں تک زندہ رہتے ہیں، جبکہ بناوٹ والے لفظ وقت کی گرد میں دب کر مٹ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ادب کی دنیا میں وہی لکھنے والے زندہ رہتے ہیں جو لفظوں کی روح سے واقف ہوتے ہیں۔ جو اپنی تحریر میں احساس کی شمع جلاتے ہیں، جو اپنے جملوں میں زندگی کے رنگ بھرتے ہیں، جو اپنے ہر لفظ کو حق اور سچائی کا آئینہ بناتے ہیں۔
تو اے لکھنے والے! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے لفظ وقت کے سمندر میں غرق نہ ہوں، تو انہیں دل کی سچائی اور روح کی پاکیزگی سے سنوارو۔ کیونکہ لفظ وہی زندہ رہتے ہیں جو سچائی کی خوشبو میں بسے ہوتے ہیں اور جو قاری کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش چھوڑ دیتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے