کیا آپ نے کبھی یہ ڈائیلاگ سنا ہے کہ:
"فلاں کے خوف کی یہ حالت تھی کہ مائیں راتوں کو اپنے بچوں کو یہ کہہ کر سلاتی تھیں کہ بیٹا سو جا ورنہ فلاں آ جائے گا".
یقینا سنا ہوگا ، اس کو آپ ڈرانے والی ماؤں کے حق میں کوئی فخر کا مقام سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے دلوں میں کسی کا ڈر بٹھاتی تھیں؟ یقینا یہ ماؤں کیلئے تو نہیں البتہ ان کیلئے فخر کا مقام ضرور ہو سکتا ہے جن کے نام سے ڈرایا جاتا تھا۔۔۔۔
اب ذرا ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو ہماری کیا حالت ہے کہ ہمارے ہاں درخت کاایک پتا بھی ٹوٹ کر گر جائے تو اس کے پیچھے یہودی سازش کا فسانہ نظر آتا ہے ، اب ہماری مائیں بچوں کے دلوں میں کیا ڈر بٹھائیں یہاں تو بڑے بھی یہود کے نام سے کانپتے ہیں ، اس کو کہتے ہیں اسٹرٹیجی کے بغیر دشمن کے تذکرے کا نتیجہ۔۔۔۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم دشمنانِ اسلام کے حوالے سے اپنی قوم کو اس طرح سے متنبہ کرتے کہ ان کے اور ان کے سہولت کاروں کیلئے ہمارے دلوں کے جذبات و احساسات وہی ہوتے جو صحابہ کرام کے کفارِ قریش کے بارے میں تھے ، لیکن ہم نے متنبہ کرنے کے بجائے قوم کو ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیا اور اب ہماری قوم بجائے مطلوب جذبے کے سخت ترین خوف کا شکار ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمتیں ہیں نہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے مہدی و مسیح کا انتظار کر رہے ہیں کہ اب تو نجات دہندہ وہی ہیں ، ہمارے بس کی بات نہیں۔۔۔۔
حالانکہ یہ شیوہ مسلمانی نہیں کہ وہ یوں بیٹھ جائیں ، بلکہ اگر ڈر و خوف بٹھانے والوں سے آپ کبھی پوچھیں کہ آخر کار یہودی یہ سب کیوں کر رہے ہیں تو بتائیں گے کہ وہ اپنے مسیحا (دجال) کی تیاری کر رہے ہیں ، یعنی وہ اپنے مسیحا کی تیاری کیلئے اسٹیج تیار کر رہے ہیں ، ماحول بنا رہے ہیں اور میدان سجا رہے ہیں۔۔۔۔
پھر آپ پوچھئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، تو ہم بھی مسیحا (سیدنا مسیح علیہ السلام اور امام مہدی) کا انتظار کر رہے ہیں ، البتہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم خوف کے مارے لوگ ہیں اور کمزوری ہی ہماری تیاری کی سب سے بڑی دلیل ہے ، اب بھلا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی نا کہ دشمن پختہ ہو کر مسیحا کا انتظار کرے اور ہم کمزور ہو کر۔۔۔۔
ہم یہ باتیں کریں تو کہتے ہیں کہ آپ سیدنا مسیح کی آمد کے منکر ہیں یا جناب مہدی کا انکار کر رہے ہیں ، ہم جوابا کہہ دیتے ہیں کہ ہم وہ کر رہے ہیں جو جماعتِ صحابہ اور ان کے بعد ہمارے اسلاف نے کیا ، جو ہر ہر میدان میں اپنے حصے کا کام کرتے گئے اور کبھی بھی یہ کہہ کر ٹھس ہو کر نہیں بیٹھ گئے اب تو گریٹر اسرائیل بنے گا پھر مسیح و مہدی کے ذریعہ ہی ہم دوبارہ زندگی کی شروعات کریں گے ، یہ نہ تو ہمارے اسلاف کا شیوہ ہے نہ اسلام کی تعلیمات ، ہاں ایک مخصوص طبقہ تو زمانے سے مہدی کے خروج کیلئے آوازیں لگا رہا ہے کیونکہ ان کا مہدی غائب ہے ، تو وہ والے ہم ہیں ہی نہیں۔۔۔۔
پھر کہتے ہیں کہ جی آپ اسلافِ امت کی بات کرتے ہیں ، لیکن ان کے زمانے میں قیامت کی نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی تھیں ، ہم نے کہا پیارے یہ جتنی نشانیاں تم بیان کرتے ہو اس کو بیان کرنے والے نبی آخر الزماں ﷺ نے ہی دو انگلیوں کو جوڑ کر فرمایا تھا کہ "بعثت أنا والساعۃ کھاتین" میرا اور قیامت کا فاصلہ اتنا سمجھ لو جتنا دو انگلیوں کا فاصلہ ہے ، تو پھر تو آپ کو بھی چاہیے تھا کہ بیٹھ جاتے ، بس یہی بتاتے کہ یہ سارا عرب اسرائیل کی ریاست بن جائے گا ، اس پر یہودی قابض ہو جائیں گے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں گے ، لیکن نہیں اس کو آپ نے کبھی بھی مستقل موضوع نہ بنایا ، بلکہ گاہے بگاہے اس حوالے سے معلومات بھی دیں ، اور ساتھ میں تدابیر بھی بتا دیں۔۔۔۔اور اپنا اصل مقصد نشر توحید پر توجہ مرکوز رکھی ، اس کو کہتے ہیں مکمل اسٹریٹجی کے ساتھ اپنے لوگوں کو بات سمجھانا ، کہ بات بھی ڈیلیور ہو جائے ، پیغام بھی سمجھ آ جائے ، حل بھی عقل میں بیٹھ جائے لیکن دشمن سر پر سوار نہ ہو ، اور دشمن بھی کون سا جن کے بارے میں قرآن کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ: "ان پر تو ذلت و مسکینیت کو مسلط کیا گیا ، ان کو بندر و خنزیر بنایا گیا ، ان پر غضب الٰہی ہوا"
یعنی کسی کھاتے میں نہ آنے والوں سے آج ہم اپنی نسلوں کے دوڑتے ہوئے خون میں ڈر بٹھانا چاہتے ہیں ، یاد رکھئے گا ڈرانے والے اور ڈرنے والے آگے نہیں بڑھ پاتے ، آپ دیکھیں تو سہی کہ اللہ نے مسلمانوں پر بدر میں ایک احسان یہ بھی فرمایا کہ: کفار کو مسلمان اپنی تعداد سے دوگنے (یعنی تقریبا دو ہزار) نظر آ رہے تھے اور وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے دو گنا (یعنی چھ سو کچھ) دکھ رہے تھے ، تاکہ مسلمانوں کو ذہنی قرار رہے کہ سامنے والے تھوڑے ہیں اور ان کو محسوس ہو کہ ہم سے کوئی بڑا لشکر ٹکرانے آیا ہے۔۔۔۔اس کو کہتے ہیں ذہنوں پر سے ڈر و خوف کو دور کر کے فریلی سوچ و بچار اور تدابیر کا موقع فراہم کرنا جو ہمارا طریقہ ہونا چاہئے تھا۔۔۔
لیکن ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم نے عوام کو خوف میں ڈال کر رکھا ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنی کمزوری کو پہچاننا ، اس کا اعتراف کرنا اور اس کو دور کرنے کیلئے کوشش کرنا مسلمان ریاستوں کی ذمہ داری ہے لیکن ساتھ ہی اپنی رعایا کو تسلی دینا اور دشمن کی طرف سے ہونے والے کسی بھی اقدام کو کچلنے کی صلاحیت کے حوالے سے عوامی اعتماد حاصل کرنا بھی ضروری ہے ، لیکن اب جو رعایا میں ہی کچھ عوام دشمن پیدا ہو جائیں اور بے جا خوف و خطر لوگوں کے دلوں میں چاہے یہودیت کے نام پر یا فریمیسن کے نام پر بٹھائیں تو اس پر کون کس کو سمجھائے ، یہی سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔۔
اس لئے ہم کہتے ہیں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے ، اپنی نسلوں میں خود اعتمادی ، بلند ہمتی اور عزم و استقلال جیسے اوصاف پیدا کیجئے ، دشمن کی کمزوریوں کو ہائی لائٹ کیجئے ، اس کے خوف کو دلوں سے نکالئے ورنہ آپ کے دشمن کو کل کسی طرح کی محنت کی ضرورت نہیں پڑنی کیونکہ ان کو پہلے ہی ایسی آمادہ قوم نصیب ہوگی جو اپنی ریاستوں پر قبضہ ہونا ہی مسیحائی کی علامت سمجھتی ہوگی ، پھر آپ کی مائیں بھی اپنے بچوں کو یہ کہہ کر سلایا کریں گی کہ "سو جا ورنہ یہودی آ جائے گا" (خاکم بدہن)
یاد رکھئے کہ آپ کسی مسیحا کیلئے نہیں بلکہ اپنے دشمن کیلئے میدان تیار کر رہے ہیں ، اور اپنا کل خود آج برباد کر رہے ہیں ، اس لئے اپنے اصل مقصد کو پہچانئے ، اسلام کی اصل تعلیمات کو سمجھئے ، اس کیلئے محنت کیجئے اور منھاجِ نبوی کو اپناتے ہوئے دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا طریقہ بھی اپنی نسلوں کو دیتے جائیے ، یہی آپ کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔اور سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت اور قدرت سے اقوام کو متعارف کروائیے ، اس کی قدرت کی وسعتوں کو دلوں میں پیوست کیجئے ، اس کی محبت اور خوف دونوں کو میراث میں چھوڑ کر جائیے تاکہ آپ کی نسلیں نہ کسی کی محبت میں ڈھیلے پڑیں اور نہ کسی کے خوف سے کپکپائیں یا گھبرائیں!
تبصرہ لکھیے