ہوم << سیکولر بھارت “اور پانی پت کی دوسری جنگ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

سیکولر بھارت “اور پانی پت کی دوسری جنگ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

انڈیا کے صوبے ہریانہ میں دہلی سے پچانوے کلومیٹر اور چندی گڑھ سے ایک سو انسٹھ کلو میٹر دور NH-1 پر ایک تاریخی شہر واقع ہے جس کے نام سے پاکستان کابچہ بچہ واقف ہے ۔ اس کا نام پانی پت ہے ۔ دور طالبعلمی میں مجھے یہ نام ان تین جنگوں کی وجہ سے یاد تھا ۔ جو کبھی یہاں لڑی گئی تھیں ۔
اس وقت ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے پورے ہندوستان میں صرف ایک ہی میدان ہے جہاں جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔
اس شہر کو “ پانڈو کا شہر “ بھی کہا جاتا ہے ۔
ہندوؤں کی کتاب “ مہابھارت “ کے مطابق پانڈو کرو سلطنت کا بادشاہ تھا ۔ وہ پانچ پانڈوؤں کا سوتیلا باپ تھا۔ ان پانچ بھائیوں کی ایک ہی بیوی تھی جس کا نام دروپدی تھا۔
کرو ریاست لوہے کے دور Iron age
(1200 -500 ق م ) میں موجودہ شمالی ہندوستان کے علاقوں دہلی، ہریانہ، پنجاب، اتراکھنڈ اور اترپردیش کے مغربی علاقوں پر مشتمل تھی جس کا دارلحکومت پانی پت تھا۔ پانی پت کا شہر ان پانچ شہروں میں سے ایک تھا ۔ جسے پانڈو نے قائم کیا تھا ۔
یہ وسطی ویدک دور کہلاتا ہے (1200 ق م تا 900 ق م)۔ صوبائی سطح کا یہ اتحاد برصغیر کی تاریخ کا پہلا ترقی یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔
اس لئے پانی پت کو ہندوستان کی تاریخ اور مذہب میں ہمیشہ سے ہی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے ۔
آر ای فریکن برگ R E Frykenberg نے اپنی کتاب Delhi Through the ages میں لکھا ہے کہ
“ دہلی کی سیاسی اور مرکزی حثیت کی وجہ سے دہلی پر قبضہ ہی دراصل ہندوستان پر قبضہ تصور کیا جاتا تھا ۔ دہلی پر حکومت ہی ہندوستان پر حکومت تصور ہوتی تھی۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دھلی پر قبضے کی جنگ پانی پت کے میدان میں لڑی جاتی رہی جو دہلی سے پچاس میل کے فاصلے پر تھا ۔ اور اس جنگ کا فاتح ہی دہلی کا حاکم بنتا ۔”

بابر نے تزک بابری میں دہلی کو سارے ہندوستان کا دارلحکومت قراردیا تھا ۔
پانی پت تاریخ کی تین اہم ترین جنگوں کا میدان رہا ہے۔ ان تینوں جنگوں کا تعلق مغلوں سے تھا ۔ ان میں اولین جنگ سے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد پڑی جس میں بابر نے 21 اپریل 1525 ء کو ابراہیم لودھی کو شکست دی ۔ اور اس طرح مغل لودھی خاندان کی جگہ تخت دہلی پر قابض ہو گئے ۔ جبکہ اسی میدان پر لڑی گئی دوسری جنگ میں مغل سلطنت نے اپنی بقاء کی جنگ کامیابی سے لڑی۔ پانچ نومبر 1556ء میں لڑی گئی اس جنگ میں نوعمر جلال الدین اکبر کے جرنیل بیرم خان نے ہیموں بقال کو تاریخی شکست دی اور ہندوستان میں بڑھتے ہوئے ہندو اقتدار کا خاتمہ کردیا۔
جبکہ پانی پت کی تیسری جنگ 14 جنوری 1761 ء کو مرہٹوں کے پیشوا سداشو راؤ باؤ اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہوئی جسمیں ابدالی نے مرہٹوں کو شکست فاش دی جس سے مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا اور مغل سلطنت چند دہائیوں کے لئے محفوظ ہوگئی ۔
بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر تخت دہلی پر قبضہ کر لیا ۔
26 دسمبر 1530 ء کو بابر کے انتقال کے بعد ہمایوں تخت پر بیٹھا ۔
بائیس سالہ ناتجربہ کار اور سہل پرست ہمایوں کو اپنے سوتیلے بھائیوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا ۔ جنہوں نے نے اسے حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کا موقع نہ دیا ۔ پھر شیر شاہ سوری کی صورت میں اسے ایک ایسے قابل اور ذہین دشمن کا سامنا کرنا پڑا جس نے 26 جون 1539 ء کو دریائے گنگا کے کنارے بلکسر کے مقام پر ہونے والی جنگ چوسا میں اسے شکست دے کر سلطنت دہلی پر قبضہ کرلیا ۔ ہمایوں میدان جنگ سے فرار ہو کر سندھ کی طرف چلا گیا ۔ جو شاہ ایران کے قبضے میں تھا وہیں 15 اکتوبر 1542 ء کو عمر کوٹ کے قلعے میں اکبر کی ولادت ہوئی ۔
شیر شاہ سوری کا انتقال 1545ء میں ہوا تو اس کے بعد اس کا بیٹا اسلام شاہ سوری تخت دہلی پر بیٹھا جس نے دس سال تک حکومت کی ۔ وہ ایک قابل حکمران تھا ۔ ہیمو ں بقال اسلام شاہ کے دور میں منظر عام پر آتا ہے ابولفضل اور عبدالقادر بدایونی کا تعلق اکبر کے دربار سے تھا ان دونوں نے ہیمو ں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے
ہیموں کا تعلق ہریانہ کے شہر ریواڑی کے ایک معمولی سے خاندان سے تھا ۔ وہ اپنی ذہانت معاملہ فہمی اور فوجی قابلیت کی وجہ سے بہت جلد ہے اسلام شاہ سوری کی نظروں میں آگیا اور اسلام شاہ نے اسے اپنے دربار میں بہت اہم مقام سے نوازا ۔
لیکن 1554ء میں اسلام شاہ کے انتقال کے بعد سوری سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ سوری خاندان کے افراد کے درمیان اقتدار کی ایسی جنگ چھڑی کہ بظاہر مضبوط نظر آنے والی سوری سلطنت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ۔
اسلام شاہ کے بعد اس کا بارہ سالہ بیٹا فیروز شاہ تخت پر بیٹھا لیکن اس کی حکومت صرف چند دنوں تک محدود رہی ۔
بامر کرسٹوف Baumer Christoph اپنی کتاب “ہسڑی آف سنٹرل ایشیاء “ میں لکھتا ہے کہ
“ اسلام شاہ کے سالے اور چچا زاد بھائی مبارز خان سوری نے اسلام شاہ کے بارہ سالہ بیٹے اور اپنے سگے بھانجے فیروز شاہ کو اقتدار کے چند دنوں بعد ہی قتل کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور عادل شاہ سوری کے نام سے حکومت کرنے لگا ۔ “
عادل شاہ ایک انتہائی نااہل عیاش اور سہل پرست شخص تھا اس نے حکومت کی زمام کار ہیموں کے سپرد کر دی اور خود اپنی عیاشیوں میں مگن ہوگیا ۔
عادل شاہ نے ہیموں کو وزیراعظم اور اپنی افواج کاسپہ سالار بنا دیا ۔
ہیموں نے بظاہر عادل شاہ سے وفاداری نبھاتے ہوئے اس کے لئے بے شمار خدمات سر انجام دیں لیکن درحقیقت وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتا رہا ۔ اس نے عادل شاہ کے لئے بائیس جنگیں جیتیں ۔
اس کی یہ تمام جنگیں سوری خاندان کے افغانوں کے خلاف تھیں جو سوری سلطنت میں انتشار کا باعث بنے ہوئے تھے ۔
جنوری 1555ء میں عادل شاہ سوری کے کزن ابراہیم شاہ سوری نے بغاوت کردی اور دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر لیا ۔
عادل شاہ ہیموں کے ساتھ بنگال کی طرف فرار ہو گیا ۔
لیکن ایک مہینے بعد ہی لاہور کے گورنر اور عادل شاہ کے سالے سکندر شاہ سوری نے ابراہیم سوری کو شکست دے کر دہلی کو فتح کر لیا ۔ اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا ۔
سوری خاندان کی اس باہمی چپقلش سے ہمایوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور شاہ ایران کی مدد سے وہ واپس ہندوستان لوٹ آیا جب سکندر شاہ سوری دہلی میں ابراہیم سوری کے ساتھ مصروف تھا ۔ اس نے فروری 1555ء کو لاہور پر قبضہ کر لیا اور دہلی کی طرف بڑھا ۔
22 جون 1555ء کو جنگ سرہند میں بیرم خان اور ہمایوں نے سکندر شاہ سوری کو شکست دے کر دہلی پر مغلیہ سلطنت کا اقتدار دوبارہ بحال کر دیا ۔ لیکن چند مہینوں بعد ہی جنوری 1556 ء کو وہ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
آرتھر وینسیٹ سمتھ Arthur Vincent Smith نے اپنی کتاب “ اکبر -دی گریٹ مغل “ میں گلبدن بیگم کے حوالے سے لکھا ہے کہ
“ 24 جنوری 1556 ء کی ایک شام جب وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں کتابیں اٹھائے دہلی کے پرانے قلعے میں واقع لائبریری “ شیر منڈل “ کی سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ اچانک فضا میں عصر کی اذان گونجی ۔ ہمایوں کی عادت تھی کہ وہ اذان کی آواز سن کر فوراً دوزانوں ہو کر جھک جایا کرتا تھا ۔ اذان کی آواز سن کر گھٹنوں کے بل جھکنے کی کوشش میں وہ سیڑھیوں سے پھسلا اور نیچے آن گرا ۔ اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہوگیا اسی بے ہوشی کے عالم میں تن دن کے بعد اس کا انتقال ہو گیا ۔ “
ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم نے “ ہمایوں نامہ “ کے نام سے ہمایوں کی سرگزشت لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ
“ بہیموں اس وقت اپنی فوج کے ساتھ دہلی کے باہر موجود تھا ہمایوں کی وفات کا سن کر ہیموں نے پرانے قلعہ پر حملہ کر دیا اور مغلوں کو ہمایوں کی باقاعدہ تجہیز وتکفین کا بھی موقعہ نہ مل سکا وہ اسے جلدی میں زمین کے اندر دفنا کر کالانور (گودارسپور) کی جانب فرار ہو گئے جہاں چودہ سالہ اکبر اپنے استاد بیرم خان کے ساتھ موجود تھا ۔
14 فروری 1556ء کو کالانورمیں اکبر کی تاج پوشی ہوئی ۔ “
7 اکتوبر 1556ء کو دہلی کے باہر تغلق آباد میں ہیموں کا آمنا سامنا دہلی کی مغل فوج سے ہوا ۔ جس کا سپہ سالار تردی بیگ خان تھا ۔
ہیموں نے تردی بیگ خان کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا ۔
تخت دہلی سنبھالنے کے بعد نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
ہندوستان پر 350 سالہ مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ ہیموں بقال نے سمراٹ بیم چندر وکرم آدتیہ کے نام سے اقتدار سنبھالا۔
دوسری جانب حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بیشتر مغل جرنیلوں نے اکبر کو کابل فرار ہونے کا مشورہ دیا جہاں اس کی پرورش ہوئی تھی اور اس کا چچا کامران مرزا حکمران تھا ۔
لیکن بیرم خان نے جنگ کرنے کا مشورہ دیا ۔ اکبر کا اس کا مشورہ پسند آیا اور بالآخر اکبر کی افواج نے دہلی کا رخ کیا۔
5 نومبر کو دونوں افواج پانی پت کے ایک گاؤں شوداپور کے باہر آمنے سامنے آئیں۔
یہ وہی تاریخی میدان تھا جہاں فتح حاصل کر کے تیس سال قبل اکبر کے دادا ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔
جگن ناتھ سرکار نے لکھا ہے ۔کہ
“ ہیموں کو ہر لحاظ سے فوجی اور نفسیاتی برتری حاصل تھی اس کے پاس تیس ہزار آزمودہ کار گھڑ سوار فوجی تھے جن میں اکثریت افغانوں کی تھی اور پانچ سو سے زائد جنگی ہاتھی تھے جبکہ اکبر کے پاس دس ہزار گھڑ سوار اور دو سو جنگی ہاتھی تھے ۔ جس کی قیادت بیرم خان اور علی قلی خان جیسے تجربہ کار جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی ۔ لیکن چودہ ساہ اکبر خود بھی میدان جنگ میں موجود تھا ۔ “
ہیموں کی طاقتور اور باحوصلہ فوج اور مغلوں کے تجربہ کار دستوں میں گھمسان کا رن پڑا
شام تک ہیمو جنگ جیت چکا تھا مغل فوج میدان جنگ سے فرار ہونے لگی تھی ۔ قریب تھا کہ ہندوستان کی تاریخ کا فیصلہ ہوجاتا کہ اچانک نامعلوم سمت سے آنے والا ایک بے نام تیر ہیموں کی آنکھ میں جا لگا۔ اس ایک تیر نے فیصلہ چودہ سالہ اکبر کے نام لکھ دیا ۔ ہیموں بے ہوش ہو کر ہاتھی کے ہودے پر گر پڑا اپنے سالار کو ہاتھی پر نہ دیکھ کر اس کی فوج میں ابتری اور افراتفری پھیل گئی۔ میدان جنگ قسمت کے دھنی اکبر کے ہاتھ رہا ۔
ابوالفضل بن مبارک نے “ اکبر نامہ “ میں تحریر کیا ہے کہ علی قلی خان اس ہاتھی کو پکڑ کر اکبر کے پاس لے آیا جس پر بے ہوش ہیموں شدید زخمی حالت میں موجود تھا بیرم خان نے اکبر کو اس کا سر قلم کرنے کا مشورہ دیا لیکن اکبر نے بے ہوش ہیموں کو قتل کرنے سے صاف منع کر دیا اور جب اصرار کے باوجود اکبر نے اسے قتل نہ کیا تو یہ فریضہ بیرم خان نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیا۔ اور اس کا سر قلم کر کے جنگ کا فیصلہ کر دیا۔”
اشیر آبادی لال سری واستو “ اکبر دی گریٹ “ میں لکھتا ہے کہ
Ashirbadi Lal Srivastava (1962). Akbar the Great.
“ Bairam Khan asked his royal ward to earn the title of Ghazi by slaying the infidel Hemu, with his own hands. We are told by a contemporary writer, Muhammad Arif Qandh, that he complied with the request and severed Hemu's head from his body. Abul Fazl's statement that he refused to kill a dying man is obviously wrong”
ہیمو کی موت کے چند مہینوں بعد
ہی اپریل 1557ء کو عادل شاہ سوری بھی بنگال میں اپنے ایک مخالف خضر خان کے ہا تھوں مارا گیا اور یوں اکبر ہندوستان کا
بلا شرکت غیرے مالک بن گیا ۔
اس عظیم فتح کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت کے حقیقی عروج کا آغاز ہوا یہاں تک کہ اکبر کے بعد جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگزیب پورے ہندوستان کو مغلوں کے پرچم تلے لے آئے۔
جان ایف ررچرڈز J F Richard’s
نے اپنی کتاب @ دی مغل ایمپائر The Mughal empire “ میں لکھا ہے کہ
“Hemu's rise from his humble beginnings in Rewari to the assumption of the imperial title of Raja Vikramaditya is considered a notable turning point in history. But if not for the stray arrow in a battle where he was in a position of strength, Hemu Vikramaditya could have restored a "Sanskritic monarchical tradition" to a region that had been subject to Muslim rule for centuries”
آج جمہوریہ بھارت گو کہ ایک سیکولر ریاست ہے، یعنی کہ وہ ملک جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں اور اسے لوگوں کا نجی معاملہ سمجھا جاتا ہے،
لیکن یہ سیکولر ازم کتنا ہندو مت کی جانب جھکا ہوا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پانی پت کے اس گاؤں شودھا پور میں جہاں یہ جنگ ہوئی اکبر کی کوئی نشانی موجود نہیں جسے مغل عہد میں سیکولر ازم کا حقیقی پروردہ کہا جاتا ہے اور وہ ہندؤوں کا پسندیدہ ترین مغل بادشاہ ہے لیکن پچھلے ستر سال سے اس ہیموں کا مجسمہ اور یادگار وہاں نصب ہے، جو ہندو اقتدار کی بحالی چاہتا تھا

Comments

Click here to post a comment