ہوم << جنگِ زلاقہ ، ایک تاریخ ساز معرکہ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

جنگِ زلاقہ ، ایک تاریخ ساز معرکہ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

جب ہسپانیہ میں مسلم اقتدار کا سورج غروب ہونے کو تھا، تو ایک 77 سالہ بوڑھے شخص نے اس مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی ۔ اور وہ تھا یوسف بن تاشفین ۔ جنہوں نے 1086ء میں 23 اکتوبر کو عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کو زلاقہ کے میدان میں تاریخی شکست دی
سپین اور پرتگال کو تقسیم کرنے والےدریائے گار ڈیانا River Guadiana کے مغربی کنارے پر ایک ڈھائی ہزار سال پرانا شہر آباد ہے عرب اس شہر کو بطلیوس کہتے ہیں اس کا موجودہ نام باڈاجوز Budajoz ہے یہ جنگ اسی شہر کے باہر ایک میدان میں دریا کے کنارے لڑی گئی ۔
گیارہویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اسپین میں مسلم اقتدار کو زوال آنا شروع ہوگیا۔ عظیم خلافت ہسپانیہ اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی کہ ہر شہر ایک آزاد ریاست بن گیا ۔ عیاش اور نااہل حکمرانوں اور درباریوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عیسائی مسلمانوں کے شہروں پر قابض ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ 1085ء میں طلیطلہ جیسا عظیم شہر بھی عیسائیوں کے ہاتھ میں
چلا گیا۔ وہ طلیطلہ جو بنو امیہ کے عہد میں خلافت اندلس کا دارالحکومت تھا، ساڑھے تین سو سال سے زائد یورپ میں مسلم تہذیب و تمدن کا گڑھ رہا ہمیشہ کے لیے مسلمانوں سے جدا ہو
گیا
طلیطلہ کوطارق بن زیاد نے 712ء میں فتح کیا تھا اور اس کے بعد سے یہ شہر اندلس میں مسلم اقتدار کی علامت سمجھا جاتا تھا آج کل یہ شہر Toledo کہلاتا ہے
یہ وہ دور تھا جب مضبوط اور طاقتور سلطنت اندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکی تھی اور یہ ریاستیں اتنی کمزور تھیں کہ ان کے لئے عیسائیوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا
اب مملکت قشتالہ (لیون )کے حکمران الفانسو کا اگلا ہدف باقی رہ جانے والی یہی کمزور اور چھوٹی مسلمان ریاستیں تھیں، جن کے حکمرانوں میں میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کا کوئی دم خم نہیں تھا۔ ان حالات میں علمائے کرام ( ان علماء میں غزالی اور طرطوسی قابل ذکر ہیں ) نے شمال مغربی افریقہ میں قائم عظیم ریاست دولت مرابطین کے حکمران یوسف بن تاشفین سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کریں۔
امام ذہبی نے لکھا ہے کہ
“جب مسلم اسپین میں طوائف الملوکی پھیلی اور یہ موقع دیکھ کر صلیبی بادشاہ الفانسو پوری تیاری کے ساتھ مسلم خطوں پر چڑھ دوڑا تو ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں بادشاہ معتمد بن عباد نے مراکش کے یوسف بن تاشفین کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔
اس پر اعیانِ سلطنت سٹپٹا گئے کہ مراکش کا وہ سلطان اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دے کر وہ اسپین تمہیں واپس تھوڑی دے گا۔ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا: دیکھو، (مراکش کے یوسف بن تاشفین کے )اونٹ چرانا (اسپین کے الفانسو کے) خنزیر چرانے سے کہیں باعزت ہے!
یوسف نے ہسپانوی مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں اس ابھرتے ہوئے فتنے سے بچانے کی ٹھان لی اور 23 اکتوبر 1086ء کو بطلیوس ( موجودہ نام بڈاجوز ) کے قریب مسلم و عیسائی افواج کا ٹکراؤ ہوا۔ تین حصوں میں تقسیم مسلمان افواج کا پہلا دستہ سلطنت اشبیلیہ کے مسلمان حاکم المعتمد ابن عباد کی کمان میں جبکہ دوسرا یوسف بن تاشفین کی زیر قیادت تھا۔ تیسرا دستہ سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تھا جو بعد ازاں جنگ میں سب سے آخر میں اترا اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مشہور مراکشی مورخ ابن عدالتی نے اپنی کتاب “البیان آلمغرب“ میں لکھا ہے کہ “ 60 ہزار میں سے صرف 500 عیسائی فوجی زندہ واپس اپنے شہر پہنچ پائے۔ الفانسو ششم کی جان کسی طرح بچ تو گئی لیکن اس کی ٹانگ پر گہرا زخم آیا، جس کی وجہ سے باقی پوری عمر وہ لنگڑا کر چلا”۔
عربی میں زلاقہ کا مطلب ہے پھسلتا ہوا میدان، اس روز اس میدان میں
اتنا زیادہ خون بہا تھا کہ سپاہیوں اورگھوڑوں کے لئے قدم جما نا مشکل تھا اسی لئے اس جنگ کو اہل عرب جنگ زلاقہ کے نام سے یاد کرتے ہیں
بدقسمتی سے جنگ کے فورا بعد یوسف بن تاشفین کے مربّی اور استاد ابو بکر بن عمر کا انتقال ہو گیا اور وہ دوبارہ واپس آنے کا وعدہ کر کے مراکش لوٹ گیا اور یوں مسلمان طلیطلہ کا شہرتو واپس نہ لے سکے لیکن اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والی فتح اتنی مکمل اور جامع تھی کی اگلے تین سو سال تک مسلمان اندلس میں نہ صرف موجود رہے بلکہ انہوں نے تین صدیوں تک عیسائیوں کو اسپین پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔ الفانسو کے عہد میں جہاں مسلمانوں کو اسپین سے نکال باہر کرنا بظاہر 10 سال کی بات لگتی تھی، اس جنگ کے نتیجے میں انہیں 1492ء تک انتظار کرنا پڑا جب سقوط غرناطہ پیش آیا اور مسلمانوں کو اسپین چھوڑنا پڑا۔
اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کا اہم ترین سبب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی کے نتیجے سے تلملا کر پوپ اربن دوئم نے یورپ کو مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیا اور چند ہی سالوں کے بعد عیسائی فلسطین پر پل پڑے اور بیت المقدس پر قبضہ کیا اور ایک صدی تک دونوں مذاہب کے ماننے والے باہم دست و گریباں رہے۔
یوسف بن تاشفین میرے بچپن کا ہیرو ہے نویں جماعت میں نسیم حجازی کا جو پہلا ناول میں نے پڑھا وہ یوسف بن تاشفین تھا اس ناول نے مجھ پر سحر سا طاری کردیا تھا اور
پھر نسیم حجازی کے ناولوں کی ایسی لت پڑھی کہ ایک سال کے اندر اندر ان کے سب ناول پڑھ ڈالے
آج بھی ان کے ناولوں کا مکمل سیٹ میری لائبریری میں موجود ہے ۔
پی ٹی وی نے 1995 ء میں یوسف بن تاشفین پر ایک سیریل “ پکار” کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی
یوسف بن تاشفین پر ہالی وڈ میں بھی کئی فلمیں بنائی گئیں جن میں انہیں ظالم اور ولن دیکھایا گیا ہے
جن میں El Cid اور El Cid - the Legand بہت مشہور ہیں
اس کے علاوہ The Age of Empire II - The Conqurors
میں بھی انہیں El Cid کے مقابلے میں بطور ولن پیش کیا گیا ہے
جو گیارہویں صدی کا عیسائی knight تھا اور سپین کا نیشنل ہیرو ہے جس نے عیسائیوں کو متحد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا
یوسف بن تاشفین اس کے بعدبھی تین بار اندلس آیا
اور ہر بار El Cid اسکے راستے کی۔ دیوار بنا
سپین میں Burgos کے مقام پر El Sid کا ایک بہت بڑامجسمہ
نصب ہے ۔ ایل یورپ اسے
El Compaeder
اور اہل عرب El Sid کہتے ہیں اس کا اصل نام Don Rodrigo Diaz de Vivar تھا
اور وہ Valencia کا شہزادہ تھا
عربی میں El Sid (السید)کے معنی ہیں ہیں سردار یا لارڈ
اور سپینش میں El Compaeder کا مطلب ہے
جنگ جو
وہ الفانسو کی فوج میں کمانڈر تھا لیکن کسی وجہ سے الفانسو El Sid سے ناراض ہوا اور اسے لیون سے نکال دیا جس پر وہ اندلس کی ریاست زاراگوزا Zaragoza کے حکمران یوسف بن الموتئمن کے پاس چلا گیا اور چھ سال تک اس کی فوج میں فوجی کمانڈر کی حیثیت سے نوکری کی
جنگ زلاقہ میں بری شکست کے بعد الفانسو نے اسے اپنے پاس بلا لیا
لیکن وہ زیادہ دن اس کی پاس نہ رہ سکا اور آخر کار 1094 ء میں وہ Valencia پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا اور مسلم اکثریت والی ریاست میں عیسائی حکومت قائم کی
اور اس کے بعد وہ یوسف بن تاشفین کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا اور جب تک زندہ رہا ناقابل شکست رہا
1099ء میں اسکی موت کے بعد یوسف بن تاشفین نے چوتھی بار اندلس کا رخ کیا اور ولینشاء کا محاصرہ کرلیا ۔ السیڈ کا بیٹا اس جنگ میں مارا گیا ۔ یہ محاصرہ سات مہینے تک جاری رہا ۔ آخر کار بھوک اور دوسری اشیاء ضرورت کی شدید قلت سے مجبور ہوکر الفانسو نے شہر کی جامع مسجد کو آگ لگا دی اور شہر کو چھوڑ کر خفیہ سرنگوں کے راستے فرار ہوگیا ۔ پانچ سال کی مسلسل کوشش کے بعدولنشیاء فتح ہو گیا ۔ اور یوں سارا مشرقی اندلس ایک بار پھر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
یوسف بن تاشفین کے اس کارنامے کا مشہور سپینش رزمیہ نظم ایل کینٹر ڈی میو سیڈ Cantar de mio Cid میں ذکر ہواہے اور اسے ایک بار پھر ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے ۔ بارہ سو سالہ پرانی یہ نظم کاسٹلین اور سیپینش کے قومی ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہے اور اسے سپین کی تاریخ میں بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ انگریزی میں اس نظم کاترجمہ Poem of the Cid کے نام سے ہوا ہے ۔
‏El Cid
کو سپین کا سب سے بڑا نیشنل ہیرو مانا جاتا ہے۔
یوسف بن تاشفین کا انتقال 1106ء میں ہوا ۔ اس نے سو سال کی عمر پائی ۔ اسے رباط میں دفن کیا گیا جہاں اس کا مقبرہ آج بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہے ۔ اس نے پچاس سال حکومت کی ۔ اور ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی ۔جس میں تمام شمال مغربی افریقہ اور دریائے تغوس (دریائے تاجہ) کے مغرب کا تمام اسپین اور دریائے ایبرو کے دہانوں تک مشرقی ساحل اور جزائر بیلارک شامل تھے۔
اس کو تاریخ میں دولت مرابطین (Almoravid dynasty) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس نے بہت اہل اور قابل جانشین چھوڑا ۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے علی بن یوسف بن تاشفین نے اندلس کے مسلمانوں کا بھر پور دفاع جاری رکھا اور جب بھی انہیں مدد کی ضرورت پڑی وہ اندلس پہنچا اور عیسائیوں کو شکست دی ۔
یوسف بن تاشفین گو کہ طلیطلہ تو واپس نہ لے سکا لیکن اس نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کو دوبارہ خلافت بغداد کے پرچم تلے متحد ضرور کر دیا
Richard Fletcher مشہور مصنف
اپنی مشہور کتاب
“ Moorish Spain “
میں لکھتا ہے کہ
“یوسف ابن تاشفین ایک بہت قابل جنرل تھا اس نے اندلسی عربوں اور قبائیلی بر بروں کے غیر فطری اتحاد کو بہت اچھی طرح استعمال کیا اور انہیں متحد رکھا
ابن تاشفین کو اچانک واپس مراکش جانا پڑا اور اس کی مہم جوئی ادھوری رہ گئی
گو کہ مسلمان ایک انچ زمین بھی واپس نہ لے سکے لیکن اس جنگ میں الفانسو کی شکست اتنی مکمل اور فیصلہ کن تھی کہ پھر ساری زندگی دوبارہ وہ اتنی قوت جمع نہ کر پایا کہ عربوں کو سپین سے نکالنے کا سوچ سکے
لیکن اس فتح سے عربوں کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انہیں ایک اور لائف لائن مل گئی اور یوں جہاں ان کا سپین سے خروج دنوں کی بات لگتی تھی وہ تین سو سال تک سپین میں اور ٹکے رہے”
نسیم حجازی نے اپنی کتاب
“ یوسف بن تاشفین “ میں لکھا ہے
“آفتاب کی روشنی میں ہم ان ستاروں کو بھول جاتے ہیں جو رات کی تاریکی میں بھٹکنے والے
قافلوں کو منزل راہ دکھاتے ہیں
یوسف بن تاشفین ایک آفتاب تھا جو اندلس کے مسلمانوں کے لئے آزادی اور مسرت کی صبح کا پیغام لے کر آیا تھا
لیکن اس کی نمود ان گمنام مجاہدوں کی قربانیوں کا صلہ تھی جنہوں نے آلام و مصائب کی تاریک راتوں میں امید کی قندلیں بلند کی تھیں “

Comments

Click here to post a comment