ہوم << مزاحمت اور استقامت کے 365 دِن- سعدیہ نعمان

مزاحمت اور استقامت کے 365 دِن- سعدیہ نعمان

یہ اکتوبر 2023 کی سات تاریخ تھی جب اقصی کے محافظوں نے ابابیلوں کی مانند ابرہہ کے لشکر پہ دھاوا بول دیا ۔۔ اہل ایمان کے دل ان مٹھی بھر مجاہدین کی استعانت کے لئے تڑپ اٹھے وہ ان کی فتح و کامرانی کے لئے سراپا دعا بن گئے وہ ان کےعزم وہمت اور جرات و استقامت پہ رشک کرنے لگے ۔ اور دامے درمے سخنے ان کی مدد کے لئے میدان میں اتر گئے ۔
یہ ایک قلیل گروہ جو اہل ایمان کا گروہ تھا ۔ ان کے دل کسی شک کسی الجھن یا تذبذب کا شکار نہ ہوئے ۔ یہ وہ تھے جنہیں رب کے وعدوں پہ یقین تھا ۔
دوسری جانب ایک کثیر تعداد ہم سے کمزور مسلمانوں کی تھی جو طوفان الاقصی کی خبر سنتے ہی ایک انجانے خوف سے لرزے بھی اور کانپے بھی ۔ دل سو طرح کے وسوسوں کا شکار ہوئے ، کئ سوال ذہن میں ابھرنے لگے ۔۔۔
یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو چھیڑ بیٹھے ۔۔ دشمن بھی وہ جسے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔۔
دانشوروں نے تجزیوں کے انبار لگا دیئے ۔ میڈیا نے پروپیگنڈہ وار شروع کر دی۔
1948 سے قابض صیہونیوں سے مزاحمت کرتے اہل فلسطین نے اپنے دفاع میں ایک دن وار کیا کیا اک ہلچل مچ گئی گویا کوئی ناقابل یقین واقعہ رونما ہو گیا ۔ اور زخم کھایا ہوا دشمن وحشی بن کے ایک بار پھر اہل فلسطین پہ ٹوٹ پڑا ۔ ہر دن قیامت کا دن تھا ہر رات قیامت کی رات تھی ۔ ٹنوں کے حساب سے وزنی بم اہل غزہ پہ گرائے گئے ۔ ہر طرح کا اسلحہ ان پہ آزمایا جانے لگا ۔ معصوم بچوں کی قطاریں لگ گئیں جو شہدا کی صف میں شامل ہوتے گئے اور جنتوں کی رونق بڑھاتے گئے ۔ دہشت اور وحشت کا کوئی رخ نہ بچا جو اہل غزہ نے نہ دیکھا ہو ۔ دکھ اور تکلیف کی کوئی جہت ایسی نہ رہی جس سے اہل غزہ نہ گزرے ہوں۔
ان کے گھر بار ان کے ہسپتال ان کے تعلیمی ادارے ان کے پانی کے ذخائر ان کے بازار ان کا تمام انفراسٹرکچر تباہ و برباد کر دیا گیا دشمن نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔۔۔
ان کے ڈاکٹر ان کے استاد ان کے انجینئر ان کے سائنسدان ان کے مفکر ان کے میڈیا ورکرز ان کے جرنلسٹس ان کے ریلیف ورکرز کوئی بھی دشمن کے ہاتھوں بچ نہ سکا ۔ ان کی کئی ہند رجب مدد کے لئے پکارتی خاموش ہو گئیں ان کے کئ نو مولود بچے بموں کی آوازوں کی تاب نہ لا سکے اور دہشت سے ان کے دل کام کرنا چھوڑ گئے ان کی مائیں اپنے بچوں کو لمحہ بہ لمحہ بھوک سے مرتے دیکھتی رہیں ان کے باپ اپنے بے سر کے بچوں کے جلے کٹے وجود ہاتھوں میں اٹھائے التجائیں اور فریادیں کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔
یہ سب ہوتا رہا یہاں تک کہ 7 اکتوبر 2024 آن پہنچا پورے 365 دن ۔۔۔۔
یہ دن امت مسلمہ کے لئے کڑی آزمائش کے دن تھے یہ دن ان کے لئے حق و باطل میں سے کسی ایک کے لئے اپنا رستہ طے کر لینے کے دن تھے ۔۔ یہ دن عام دنوں جیسے دن نہ تھے یہ سال عام سالوں جیسا سال نہ تھا یہ سال ایک فرقان بن کے آیا تھا ۔۔۔ اس سال نے بہت کچھ کھول کے رکھ دیا کہ اہل عقل کے لئے جس میں نشانیاں ہیں۔
اب منظر نامہ یہ ہے کہ خود کو طاقتور سمجھنے والے وقت کے فرعون کا غرور خاک میں مل چکا ہے سپر پاور کہلائے جانے والے ممالک ناکام ہو چکے ہیں وہ جو سمجھتے تھے کہ وہ محض چند دنوں میں مزاحمت کو کچل کے اس پورے علاقہ پہ قابض ہو جائیں گے وہ 365 دنوں کے بعد بھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ان کے اپنے عوام ان کے سامنے سراپا احتجاج بنے کھڑے ہیں
اور اب طیش کے عالم میں قابض دشمن جنگ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اپنے ہی گرد بربادی و تباہی کا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔
ظالم اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے اور بے شک اللہ کی تدبیر اور اس کی چال سب پہ حاوی ہے ۔
وہ ظالم کی رسی دراز تو کرتا ہے اور اس کے ذریعے وہ اہل ایمان کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن اس کی پکڑ بہت سخت اور اس کا عذاب بہت شدید ہوتا ہے ۔
ظالم بظاہر قوی سے قوی تر بھی ہو بالآخر اپنے انجام کو پہنچے گا لیکن اس پورے منظر میں امت مسلمہ کہاں ہے ؟ مسلم حکمرانوں کی خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ وہ دولت دنیا اور شان و شوکت کی محبت اور لذت میں اقتدار کے نشہ میں غرق ایمان کے کمزور درجہ پہ کھڑے محض تماشا دیکھ رہے ہیں۔۔زبانی کلامی چند مذمتی الفاظ کہہ کے وہ رب کی عدالت سے بچ نہیں سکتے یہ وقت تھا متحد ہونے کا ایک ساتھ کھڑے ہو کے دشمن کو للکارنے کا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا لیکن سب کی غیرت سو چکی ہے ۔
۔۔۔ اس ایک سال میں ہم نے دیکھا کہ تجزیہ کار اور اہل دانش اب بھی تجزیوں میں مگن ہیں ایک سے بڑھ کے ایک توجیہہ دی جا رہی ہے کمزور ایمان والے اب بھی شک اور تذبذب میں لپٹے یقین و بے یقینی میں ہچکولے کھا رہے ہیں بے عملی ایک سزا بن کے مسلط ہو چکی ہے
دوسری جانب ایک الگ ہی دنیا ہے یہ اہل غزہ کی دنیا ہے یہ قبلہ اول کے محافظوں کی دنیا ہے
آزمائش کی اس گھڑی میں اگر اب بھی کوئی ثابت قدم ہے تو وہ اہل قدس ہیں۔۔۔قبلہ اول کے یہ حقیقی نگہبان۔۔۔کہاں سے آتی ہے یہ ایمانی طاقت سب کچھ کھو کے بھی کہاں سے آتی ہے یہ استقامت۔۔۔ یہ ایمان یہ جذبہ یہ یقین یہ حوصلہ۔۔۔ زرا نظر ڈالئے وہ کس طرح قرآن سے جڑے ہیں نماز سے جڑے ہیں سب کچھ کھو کے بھی اگر کچھ نہیں کھویا تو وہ دولت یقین ہے وہ ایمان ہے وہ قرآن سے محبت ہے وہ نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عقیدت ہے ۔۔۔ چھت نہیں رہی گھر نہیں رہے تو کیمپوں میں قرآن کے مدرسے کھل گئے خواتین بچے قرآن سینوں میں محفوظ کر رہے ہیں اس پہ خوشیاں منا رہے ہیں ان میں زندگی ہے ان میں امید ہے دشمن برباد کرتا ہے یہ آباد کر لیتے ہیں یہ ڈرتے نہیں یہ جھکتے نہیں یہ دبتے نہیں ان کا بچہ بچہ سینہ تان کے کھڑا ہے فتح و نصرت کا یقین انہیں متزلزل نہیں ہونے دیتا ۔۔بے شک یہ قربانیاں اور یہ لہو ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا ۔

حق غالب آئے گا اور باطل مٹ جائے گا بے شک باطل مٹنے ہی کے لئے ہے ۔۔
اللہ کے وعدے تو سچے ہیں اور پورے ہو کے رہیں گے تب تک اللہ کے وعدوں اور اس کی سنت کی روشنی میں ہر کوی اپنے اپنے گروہ کا انتخاب کر لے اور اپنا اپنا انجام سوچ لے۔

Comments

Click here to post a comment