ہوم << ابنِ صفی - حبیب الرحمٰن

ابنِ صفی - حبیب الرحمٰن

برِ صغیر انڈ و پاک میں جب بھی اور جہاں بھی "سری ادب" کا ذکر آئے گا وہاں ابنِ صفی کا نام ہمیشہ سرِ فہرست نظر آئے گا۔ ابنِ صفی جن کا اصل نام اسرار احمد تھا 26 جولائی 1928 میں بھارت کے شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی وفات 24 جولائی 1980 کراچی (پاکستان) میں ہوئی۔
ہر دور کو ہمیشہ ہی مختلف چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ ابنِ صفی کے دور میں بھی سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شعر و شاعری یا دینی کتب کے علاوہ ایک ایسا عام آدمی جس کو ادب کا کوئی ذوق نہیں تھا یا اس کے میلانِ طبع کا جھکاؤ دین کی جانب تھا ہی نہیں، تو اس کے پاس فحش اور بیہودہ کتابوں کے علاوہ اور کچھ تھا بھی نہیں جسے وہ شوق سے پڑھ سکے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ عام آدمی کی ذہنی ساخت ہی ایسی بن چکی تھی کہ اسے فحش ادب کے علاوہ کوئی اور تحریر پسند ہی نہیں آتی تھی۔ ابنِ صفی کے دوستوں یا حلقہ احباب کا بھی یہی خیال تھا کہ اس قسم کے ماحول میں کسی اور موضوع پر اگر کچھ لکھ بھی دیا جائے تو اسے عوامی مقبولیت شاید ہی مل سکے کیونکہ لوگ اردو میں اگر کچھ پڑھنا بھی چاہتے ہیں تو وہ صرف اور صرف فحش اور بیہودہ قصوں اور کہانیوں ہی کو ہی پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب دانشمندوں تک کی یہ رائے پختہ ہو چکی تھی، ابنِ صفی نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور ایک ایسے "سری ادب" کو تخلیق کیا کہ برِ صغیر کے کروڑ ہا کروڑ عوام اس اوچھے ماحول سے یوں باہر نکلے کہ اب شاید ہی کسی اسٹال پر فحش کتابیں نظر آتی ہوں اور اگر اکا دکا کہیں دکھائی بھی دیتی ہوں تو ان کی حیثیت ردی سے زیادہ شاید ہی سمجھی جاتی ہو۔
بلا شبہ ابنِ صفی سری ادب کو اس مقام تک لے گئے جہاں تک شاید ہی کسی کا وہم و گمان جاتا ہو۔ عام طور پر اس قسم کے ناولوں کو ناول کا نام تو دیا جاتا ہوگا لیکن جاسوسی نگاری کو "ادب" کا مقام دینے کیلئے ادباء شاید کبھی تیار نہیں تھے، یہ کمال ابنِ صفی ہی کا ہے کہ انھوں نے اردو کے ادباء سے سری ادب کو اردو ادب کی ایک صنف کے طور پر منوا یا بلکہ اب جاسوسی ناولوں کو کوئی صرف جا سوسی ناولوں کے طور پر نہیں بلکہ اردو کی ایک نئی صنف یعنی سری ادب کے طور پر پر پڑھتا ہے۔
میں آج ان کی کسی جاسوسی ناول یا ان کے "فنِ سری ادب" کے موضوع کچھ باتیں کرنے کی بجائے ان کے فن میں چھپے اور بہت سارے پہلوؤں میں سے کچھ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ابنِ صفی جاسوسی ادب کے ایسے سورج ہیں جن کے آگے مجھ جیسا انسان سری ادب کے نشیب و فراز کے بارے میں جتنی بھی رطب السانیاں کیوں نہ کرلے، اس کی ساری رطب السانی اس چراغ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھ سکے گی جسے عین نصف النہار کے وقت سورج کے سامنے رکھ دیا جائے۔
اُس دور خرافات میں جب ہر عام و خاص کی یہ سوچ پختہ ہو چکی تھی کہ اب فحاشی اور برہنگی کے سامنے اردو کی کوئی شستہ و شائستہ تحریر بگڑے ہوئے اذہان کے سامنے شاید ہی ٹک سکے، ان کے سری ادب کا پہلا شاہکار اور جاسوسی دنیا کا پہلا شمارہ، 1952 میں "دلیر مجرم" کی شکل میں سامنے آیا جس میں کرنل فریدی اور کیپٹن حمید ہیروز کی صورت میں متعارف ہوئے۔ یہ پہلی کتاب بارش کا ایسا پہلا قطرہ ثابت ہوئی کہ ذہنوں کا گند دھل گیا اور ہر وہ فرد جس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب شاید ہی کوئی شستہ ادب دل و نگاہ میں قدم جما سکے، ایسے صاف ہوا کہ ہر جانب ایک کے بعد ایک ناول کی فرمائشیں شروع ہو گئیں۔ 1955 میں عمران سیریز کے تحت ان کا پہلا شاہکار "خوفناک عمارت" شائع ہوا جس کا مرکزی کردار علی عمران تھا۔ علی عمران کے کردار نے لوگوں کے دلوں میں ایسی جگہ بنائی کہ وہ پتھر پر بنے نقوش کی طرح دلوں میں ثبت ہو گئی۔ علی عمران کے کردار کو بہت پسند کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عوامی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ پاکستان میں "اسرار پبلیکیشن کا ادارہ ابنِ صفی ہی نے قائم کیا اور اس ادارے کے تحت سب سے پہلی کتاب عمران سیریز ہی کے تحت "ٹھنڈی آگ" شائع ہوئی۔ یہ سب ناول سری ادب کے وہ پہلے پہلے قطرے تھے جو برسے ہی تھے کہ سری گھٹائیں ایسا ٹوٹ کر برسیں کہ سارے جنسی اور فحاشی کے لٹریچر کو بہا کر لے گئیں اور لوگوں کے پراگندہ ذہن سری ادب کے شوق و ذوق کے گل و گلزار میں بدل گئے۔
ابنِ صفی نے صرف یہی نہیں بتایا کہ مجرموں کے جرائم کا سراغ کس طرح لگایا جاتا ہے اور پھر ان کو کیفر و کرار تک کس طرح پہنچایا جاتا ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ جرائم جنم کیوں لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر گفتگو کیلئے بہت وقت درکار ہے لیکن میں ان کی تحریروں کے کچھ ایسے پہلوؤں پر بات چیت کرنا چاہتا ہوں جن پر شاید ہی کسی کی نظر پڑی ہو۔
ان کا کوئی ایک ناول بھی ایسا نہیں جن کے صفحات ایسے انوکھے جملوں یا پیرا گرافوں سے مزین نہ ہوں جن کی تشریح غالب، میر، استاد ذوق، چراغ حسن حسرت یا علامہ اقبال جیسے شاعروں کے اشعار کی طرح نہ کرنی پڑے۔ وہ جملے بلا شبہ کسی بھی بڑے شاعر کے اشعار کی طرح اتنے تشریح طلب ہیں کہ اگر اس پر الگ سے بات چیت کی جائے تو نہ جانے کتنے قرطاسِ ابیض سیاہ ہو جائیں۔ ایسے ہی چند کتابوں سے کشید کئے کچھ جملے میں سامعین کے خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا اور خواہش رکھوں گا کہ وہ جب بھی کبھی ابنِ صفی کی کتابوں کا مطالعہ کریں، ان میں لکھے گئے ایسے ہی تمام تشریح یا غور طلب جملوں کو ضرور نوٹ کریں اور ہو سکے تو دوسروں کے ساتھ ایسی گہرائی رکھنے جملوں کو شیئر کریں تاکہ ان کے معنی و مطالب اچھی طرح لوگوں کو سمجھ میں آ سکیں۔
جونک کی واپسی میں وہ ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ "میں جانتا ہوں حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم جرائم نہیں حکمتِ عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہوتا ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے"۔
کیا ہی سچی بات ہے جو بلا لحاظ کہدی گئی ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ حالات جب بھی ایسے ہی تھے جیسے کئی برس گزر جانے کے باوجود آج بھی ہیں۔ اگر ہم چند واقعات بھی اس جملے کی مناسبت سے تحریر کرنے بیٹھ جائیں تو نہ جانے کتنے صفحات بھر جانے کے باوجود موضع پر گفتگو ادھوری کی ادھوری ہی رہ جائے۔
سہ رنگا شعلہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں، "آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا ہے اور آدمی مستقبل کے لیے مرا جاتا ہے"
مستقبل کیلئے مرے جانے کا سبب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے۔ اگرانوروں کی طرح اسے پیٹ بھرنے کی ساری غذائیں ہر ہر جگہ میسر ہوتیں تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور اپنی زندگی کیلئے آسانیاں در آسانیاں پیدا کرتا۔ یہ پیٹ ہی تو ہے جو اس کو صرف جینا نہیں سکھاتا بلکہ آنے والوں کیلئے بھی آسانیاں در آسانیاں پیدا کرنے کی جد و جہد میں رات دن مصروف رکھتا ہے۔
مہکتے محافظ میں درج ایک نہایت خوبصورت و پُر مغذ جملہ ملا حظہ فرمائیں۔ میں عموماً بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں
خطرناک لاشیں میں فرماتے ہیں کہ " اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انھیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں"۔
کیا یہی بات ہر دور کی حقیقت نہیں ہے۔ کیا آج بھی ظلم و جبر کی داستانیں ویسی ہی کی ویسی نہیں ہیں۔ کتنا درد اور کتنی سچائی لئے ہوئے ہے یہ جملہ۔ قارئین کیلئے یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
صحرائی دیوانہ میں کہتے ہیں " جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں" اس جملے میں جہاں ایک پھر پور سچائی ہے وہیں آپ ابنِ صفی کی دانشمندانہ "احتیاط" کا اندازہ لگائیں کہ یہ کہہ کر کہ "میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں"۔ مذہبی نقطہ نظر سے کتنے بڑے طوفان کے برپا ہو جانے والے جھکڑوں کو روک لیا۔ مذہباً کسی بھی معاملے پر کوئی جملہ اعتراض اٹھانا جنونیوں کیلئے ایک ایسا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے جو کسی بھی بڑے فتنے کا باعث ہو سکتا ہے لیکن یہ ابنِ صفی ہی کا کمال ہے کہ نہایت دانائی سے وہ اپنی بات بھی کہہ گئے اور ایک سیلابِ بلا خیز کو بھی تباہی مچانے سے روک دیا۔
ہیروں کا فریب میں ذرا اس جملے کی حقانیت ملاحظہ کریں۔ "دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے"۔
گویا صرف انسان کا بنایا ہوا قانون ہی نہیں، مجرموں پر کچھ نادیدہ و دیدہ طاقتیں بھی ہیں جو ان کو ان کے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہیں۔ قانون کی گرفت میں تو وہ آتے ہی آتے ہیں، خود اپنوں کے ہاتھوں بھی کام آتے رہتے ہیں۔ کبھی مخبری کے اندیشے سے، کبھی لوٹ مار کے مال کی تقسیم کے تنازعہ پر اور کبھی شراب و کباب کثرت ان کیلئے لقمہ اجل ثابت ہوتی ہے۔ در اصل جرائم پیشہ افراد ایسی بند گلیوں میں پھنس جاتے ہیں جہاں ان کے آخری ایام موت یا جیل کی کوٹھڑی پر جا کر ہی ختم ہوتے ہیں۔ وجہ صرف اور صرف غیر فطری زندگی گزارنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
جہنم کی رقاصہ۔ ہ" اس ملک میں تمھارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تعمیر نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو۔"
یہ بات شاید دنیا کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کوئی بھی ظالم، جابر اور آمر حکمران اور اس کا ٹولہ صدیوں حکومت نہیں کر سکا۔ جس نے بھی اسلام یا اللہ کے احکامات سے تجاوز کیا وہ ٹک نہ سکا۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالی جائے تو ان کے ظالم و جابر حکمران صدیوں یا کئی کئی دھائیوں سے ان پر مسلط ہیں لیکن یہ ایک معجزہ ہے کہ ہمارے ملک میں اللہ موقع تو باری باری سب کو ہی فراہم کر تا ہے لیکن ظلم و جبر کرنے والوں کو کسی عذابِ خداوندی کے طور پر قوم پر مسلط نہیں ہونے دیتا۔
ٹھیک اسے انداز کے دو جملے اور عرض کرنے کی جسارت کروں گا اور امید رکھوں کہ ان جملوں کی گہرائیوں میں قارئین از خود اتر کر ابنِ صفی کی مثبت سوچوں کو سمجھنے کی نہ صرف کوشش کریں گے بلکہ اسے دوسروں تک بھی ضرور پہنچائیں گے۔
موت کی آندھی میں فرماتے ہیں " جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے"
اور
دشمنوں کا شہر میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ " ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمھیں دعائیں دے گا"
ابنِ صفی کی سوچ کی پرواز اپنے زمانے سے چالیس پچاس سے بھی کہیں زیادہ آگے کی تھی۔ وہ آنے والے مستقبل کو کس مقام پر دیکھ رہے تھے اس کا اندازہ ان کی چند ایسی باتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کی کہانیوں میں دکھائی جانے والی ایجادات جن کو خواب و خیال کی باتیں سمجھا جاتا تھا اور عوام الناس اسے ماورائے عقل سمجھا کرتے تھے، وقت نے ثابت کیا کہ وقت تو اس سے بھی کہیں زیادہ آگے جا چکا ہے۔ مثلا "زیرو لینڈ" کی ایک ایسی ایجاد کا ذکر کیا جو زیرو لینڈ کے کارندے کو کسی بھی زیرولینڈ والے کارندے کی قربت کا احساس دلا سکتی تھی۔ یہ ایک ایسا آلہ تھا جو ایک خاص فاصلے پر موجود کسی دوسرے ساتھی کی موجود کا پتہ دیتا تھا۔ کیا آج کل ٹریکر کے ذریعے ہم کسی کو بھی ٹریس نہیں کر سکتے۔ اسی طرح "پن پوائنٹ" حملے کا جب تصور تک نہیں تھا، "ایڈلاوا" میں صفدر کے فون کرنے پر ایڈ لاوا نے ٹھیک اسی مقام کو ٹریس نہیں کر لیا تھا جہاں علی عمران موجود تھا۔ یہ تو عمران کی چھٹی حس نے اسے مقام بدل لینے پر اکسا لیا ورنہ بم تو ٹھیک اسی مقام پر گرا تھا جہاں عمران موجود تھا۔ کیا یہ اس وقت کا "ڈرون" حملہ نہیں کہا جا سکتا۔ پیاسا سمندر میں سائنسدان کی بیٹی کے سر پر ایک جعلی "کنٹوپ" پہنا کر تھریسیا نے یہ تاثر دیا تھا کہ اس کے ذریعے بولنے والا جس زبان میں بھی بات کریگا وہ سننے والا اپنی زبان میں سنے گا۔ کیا آج کل ایسے ایسے سافٹ ویئر ایجاد نہیں ہو چکے جو کسی بھی زبان کا ترجمہ کسی بھی دوسری زبان میں بخوبی کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ آج کل کے موبائل کا کیمرا کسی بھی تحریر کو دوسری زبان کی تحریر میں دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی سب باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ابنِ صفی کہ کی باتیں جن کو ہم پڑھنے والے خواب و خیال کی باتیں ہی سمجھتے تھے، ابنِ صفی کی آنکھیں اس کو آنے والے دور میں حقیقت کی طرح دیکھتی تھیں۔
ایسے نہ جانے تصورات تھے جو آج کل حقیقت سے بھی کہیں آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں