ہوم << بنگلہ دیش-نصرت مبین

بنگلہ دیش-نصرت مبین

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ مرغی اپنے بچوں کو بلی کے پاس جانے سے بچا رہی تھی کہ یہ تمہارا دشمن ہے بچوں کا اصرار یہ تھا یہ بہت نرم گرام اچھی ہے مگر وہ اس خطرناک اور دشمن کو نہیں سمجھ پا رہے تھے ۔

حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمن نے 70 کی دہائی میں انڈیا سے مدد لی اور پاکستان سے الگ ہو کر اپنا الگ وطن بنا لیا ،اسے وہ مرغی کے بچوں کی طرح اپنا خیر خواہ سمجھ رہے تھے۔ بھارت نے بھی دل کھول کر مدد کی پاکستان سے دشمنی نبھائی فائدہ اٹھایا اب بنگلہ دیش کے حالات خراب ہوئے اندرونی انار کی پھیلی تو بھارت مدد کے لیے نہیں ایا جبکہ 1970 میں اپنی فوجیں پاکستان میں داخل کر دی تھی صرف پاکستان کے دشمنی میں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو اکٹھا کرنے کے لیے کوئی ایک نعرہ ہی کافی ہوتا ہے، مگر وہ نعرہ انسانی نفسیات کے مطابق ہو ،دلوں کو چھوئے اور لہو کو گرما دے۔

پاکستان بننے کا نعرہ لا الہ الا اللہ ساری قوم تن من دھن سے ایک ہو گئی جان و مال سب کچھ قربان کردیا ،اور اپنا مقصد حاصل کر لیا یعنی ازاد وطن حاصل کر لیا ۔

70 کی دہائی میں نعرہ لگا روٹی کپڑا مکان پھر قوم ایک ہو گئی دل و جان سے اس نعرے کے ساتھ ہو گئی ۔

جس نعرے پہ قوم کو جمع کرنا ہوتا ہے ،متحد کرنا ہوتا ہے وہ نعرہ کا ایسا غبارہ ہے جس میں ہوا بھرنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ یہ دور تک بلندی تک اڑ سکے اگر ہوا کم ہوگی تو اس کی پہنچ اوپر تک نہیں ہوگی جلدی پھٹ جائے گا اور وہ تحریک اس نعرے کے ساتھ زمین بوس ہو جائے گی ۔

حالیہ واقعات میں حسینہ واجد کا ایک جملہ ا سے لے ڈوبا حسینہ واجد نے کہا "طالب علم دہشت گرد ہیں ہم انہیں کچل دیں گے "

اس جملے کو اس قدر پھیلایا گیا ہے اس قدر زبان زد عام کیا گیا کہ لوگ اس کے ساتھ ہی بہ گئے ۔

حسینہ واجد کے دورے حکمرانی کا یہی طریقہ تھا پکڑو، مارو اور کچل دو رحم نہ کرو جو مخالفت کرے اسے سولی پر چڑھا دو کتنے ہی لوگ اس ظلم کا شکار ہوئے ظلم تو ظلم ہے حد سے بھڑے تو مٹ جاتا ہے جو اس قوم کے اندر غصہ لاوہ اپنے لیڈر ران کے خلاف پک رہا تھا کھل کر سامنے اگیا سب متحد ہو گئے حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر استفی دے کا فرار ہونا پڑا ۔

یہ ہے الفاظ کی طاقت اور انہیں زبان زد عام کرنے کی طاقت اور فائدہ ۔

Comments

Click here to post a comment