ارے بھائی مقصدِ حسین پہ بھی تو بات کرو۔ ہر اہم موقعے کو لڑائی جھگڑے اور تو تکار کا موقع بنا لیا ہے۔ کچھ خدا کا خوف ہے تو کرو
مقصدِ حسین ہے ظالم کو استطاعت بھر للکارنا۔ جس آئیڈیالوجی پر یقین رکھتے ہو اس پر استطاعت بھر جینا۔ حق کے راستے پہ چلتے ہوۓ کسی ملامت گر کی پرواہ نہ کرنا۔ اپنے بچوں اور خاندان سے بڑھ کر خدا کو چاہنا۔۔۔ یہاں تمہارے پر جلتے ہیں۔۔۔ ہاں گھروں مجلسوں میں بیٹھ کے مسلمانوں میں آپس کے اندر توڑ پھوڑ، لعنت ملامت اور دست و گریبان کرنا، یہ کس خوف ناک خدا کی پکڑ کے کام میں الجھے ہوۓ ہو
یہ مقصدِ حسین کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو رونا دھونا، کھانے بانٹنے، ماتم، شامِ غریباں کے تذکرے کس کام کے؟؟؟ تم بالکل بھی خود کو حسینؓ کے عقیدت مند ہونے کا دھوکا مت دو۔ سنا ہے کہ کوفے والے اشک بار آنکھوں سے جنگ دیکھ رہے تھے اور دعائیں کرتے جاتے تھے کہ کہیں سے غیبی مدد پہنچ جاۓ۔ کسی نے پوچھا کہ خدا کے دشمنو تم اتر کے مدد کیوں نہیں کرتے۔ اس سوال کا نہ ان کے پاس کوئی جواب تھا نہ کردار۔۔۔ تو آج کے دور میں رہنے والے او مسلمان، اپنے گریبان میں خود جھانک کے تسلی سے دیکھ کہیں تو بھی کوفی تو نہیں؟
تم نے اپنے کاروباروں کو بت بنا رکھا ہے۔ تم نے اپنی اولادوں کی پرستش جاری رکھی ہوئی ہے۔ تم نے اپنے زوج اور والدین کو خدا بنا رکھا ہے۔ تم نے اپنی لذت کو معبود سمجھ رکھا ہے۔ تمہاری ساری کوششوں کا مرکز بس یہی پستیاں بن کے رہ گئی ہیں۔ اگر ان سب کو خدا سے ہم آہنگ کر کے جیتے تو یہی پستیاں بلندیاں بنتیں۔ پر تم نے کیڑے مکوڑے بننا پسند کیا
ہاں ذرا بھرم بھی قائم رہ جاۓ تو بے روح ختم شتم کرا لیتے ہو۔ بے روح تذکرے کر لیتے ہو۔ بے روح رسومات نبھا لیتے ہو۔ لیکن یہ سب کام تمہارے کردار میں اگر بدلاؤ پیدا نہیں کرتے تو اس دنیا میں بھی مقصدِ حسین کو مبہم کرنے کا سبب ہو۔ باعثِ رسوائیءِ پیغمبرﷺ ہو۔ اسلام کو دنیا میں بدنام کرنے کی وجہ ہو۔۔۔ خدا کو جواب دینے کے لیے تمہارے پاس آخر کچھ ہے؟ ساہو کار، بنیے اور مفاد پرست مادیت کے بندے بنو یا مخلص، بامقصد، نرم دل، نرم زبان، اور محبت و استقامت رکھنے والے فایدہ مند مسلمان
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا
تبصرہ لکھیے