سکول جانے والے بچوں کے بستے اتنے وزنی ہیں کہ دیکھ کر دل دُکھتا ہے۔ہوا کچھ یوں کہ ایک بچے سے راہ چلتے پوچھ لیا، بیٹا آپ کے کتنے سبجیکٹس ہیں۔ جواب آیا، آٹھ سبجیکٹس ہیں جناب۔
تو بیگ میں کیا ہے پھر؟
آٹھ کتابیں۔ اور ان کی کاپیاں۔ دو گرائمر بکس۔ انگلش بی، اردو بی کی کاپیاں۔ گائیڈ۔ ڈائری۔ رف رجسٹر۔
کل ملا کے ۲۳ کتابیں کاپیاں۔
اف۔۔۔
مجھے نہیں پتہ یہاں کا نظام کیا ہے ، رواج کیا ہے ، ریت کیسی ہے۔ تو اسے فقط نرا ایک عدد مفت مشورہ ہی کہہ لیں لیکن ہے یہ بہت ہی خلوص اور دُکھی دل والا مشورہ۔
آٹھ یا دس کتابیں تو اب جو ہیں ، سو ہیں۔ لیکن ایسا تو ہو سکتا ہے ناں ، کہ ایک ہی بڑے فولڈر میں A4 سائز کی پہلے سے سوراخ شدہ شیٹس لگا لی جائیں اور ہر مضمون کے لئے separator (یعنی نشانیِ واثق کہ یہاں سے اگلا مضمون شروع ہو رہا ہے)لگا لیا جائے۔
بچے اتنے ہی پیپر لگا کر لے جائیں ، جس قدر کی اس دن ضرورت ہو۔ گھر آ کے استعمال شدہ شیٹس کا ایک فولڈر ہو جہاں ترتیب سے سب کام جمع کر دیں اور بلینک شیٹس سکول والے فولڈر میں لگا لیں۔
مجھے نہیں پتہ یہ آواز کہاں تک جا سکتی ہے، لیکن شاید، والدین اگر اساتذہ سے کہہ پائیں، شاید اساتذہ اگر اپنے پرنسپل صاحب کو راضی کر پائیں۔ کہیں سے تبدیلی کی لہر چلے۔ بچوں کے نازک کندھے اتنا بوجھ اٹھانے کو تو نہیں بنے۔ تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے، نہ کہ بچوں پر اتنا وزن لاد دیں۔چائلڈ لیبر پر پابندیاں عائد کرنا انتہائی صائب اور اچھا اقدام تھا ، لیکن یہ بیس پچیس کتابیں ، اور دس د س کلو گرام کے بستے ، کیا یہ چائلڈ لیبر سے کچھ کم ہیں ؟؟؟ فقط یہ فرق ہے ، کہ اس مزدوری کو قانونی و معاشرتی طور پر سائبان میسّر ہے ۔ اسکول کو جیل خانہ بنا دیا گیا ہے اور بچوں کو چکی پیسنے والے مجرم ، جبکہ توقع پھر بھی ان سے یہی ہے کہ چاند پر ہماری تازہ بستیاں بھی یہی آباد کریں گے!!!
تم قتل کرو ہو، کہ کرامات کرو ہو؟؟؟
اقبال نے کہا تھا کہ
کریں گے اہلِ نظَر تازہ بستِیاں آباد ، (مِری نگاہ نہیں سُوئے کوفۂ و بغداد)
لیکن انہوں نے کہیں یہ بیان نہیں کیا کہ اہلِ نظر کی کمر توڑی جا چکی ہو گی۔(کم از کم ہماری نظر سے تو ایسا کچھ نہیں گزرا)
واللہ اعلم بالصواب
تبصرہ لکھیے