دفتر سے واپسی پر اچانک موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا۔ چونکہ صبح کا وقت تھا تو تقریباً تمام دوکانیں بند تھیں۔ پھر اچانک خیال آیا کہ ادھر قریب ہی شملہ پہاڑی کے پاس ٹوٹل کا پیٹرول پمپ ہے وہاں ضرور کوئی پنکچر والا ہوگا۔ پندرہ منٹ کی ”طویل“ پیدل مسافت کے بعد جب پیٹرول پمپ پہنچا تو وہاں پنکچر والی دکان پر ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا نظر آیا۔
بچے سے سلام لیا اور بغیر وقت ضائع کئے موٹر سائیکل ”وڈے سٹینڈ “ پر لگایا اور کہا ”چھوٹے جلدی سے پنکچر لگا دو، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے“۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ اس نے نہایت گرم جوشی سے عقب میں پڑی کرسی سے گندہ کپڑا لیا اور موٹر سائیکل پر پھیرنا شروع کردیا۔ اسکی یہ پھرتی دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوگئی کہ چلو شکر ہے بندہ قابل ہے جلدی پنکچر لگا دے گا۔ اس صاف صفائی میں کب دس منٹ گزرے مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ لیکن بچہ ابھی بھی صفائی میں ہی مگن تھا۔ مزید پانچ منٹ وہ یوں ہی لگا رہا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ ان جناب کو تو پنکچر لگانا آتا ہی نہیں، یہ تو صرف اوزار پکڑانے کا کام کرتے ہیں، اصل استاد تو صبح دس بجے آئے گا۔
یہ سن کر میں نے غصے سے موٹر سائیکل سٹینڈ سے اتارا تو بچہ تھوڑا شرمندہ سا ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ ادھر ہی بیٹھیں۔ آگے گلی میں پنکچر والی دکان ہے۔ میں ادھر سے خود پنکچر لگوا لاتا ہوں۔ آفر اچھی تھی لہذا میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہی وہ سب مین پنکچر لگوا کرواپس آگیا۔ اسکے چہرے پر الگ ہی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو۔ میں نے اسے پنکچر کے پیسے دیے اور جاتے ہوئے اسکا نام پوچھا تو کہنے لگا کہ
” میرا نام سکندر ہے لیکن آپ میرا نمبر” ٹوٹل سکندر“کے نام سے موبائل میں” فیلڈ“ کرلیں۔ آئندہ جب بھی آپکو مسئلہ ہو ٹوٹل کے پیٹرول پمپ پر پہنچ کر بس اسے ایک ” مسڈ کال“دیں، آگے میں خود سب سنبھال لوں گا“ ۔ میں نے اس کا دل رکھنے کیلئے نمبر لے لیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔
آج صبح سے جوں جوں بھارت کی چاند پر جانے کی خبریں آرہی ہیں، توں توں مجھے” ٹوٹل سکندر “ کی یاد آرہی ہے۔ شاید ہم بھی بحیثیت قوم ” ٹوٹل سکندر“ ہی ہیں۔ بجائے بھارت کو مبارکباد دینے کے لوگوں نے اپنی توپوں کا رخ مخصوص اداروں کی طرف ایسے کر لیا ہے جیسے خاندان میں ایک قابل ”کزن“ کے ٹاپ کرنےپر والدین ”جوتوں” کا رخ نالائق بچوں کی جانب کر لیتے ہیں۔ کچھ شر پسند عناصر تو یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ ”ہمیں بٹگرام چیئرلفٹ سے بچوں کو بحفاظت نکالنے میں دس گھنٹے لگ گئے، اور بھارت چاند سے ہو آیا ہے“۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ چاند پر جانا کونسی اتنی بڑی بات ہے؟ وہاں ہوا، پانی، دھوپ سمیت کوئی اللہ والی شے موجود نہیں۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ انڈیا نے بھی بس دنیا کو دکھانے کے چکر میں پیسے ہی ضائع کیے ہیں وگرنہ سچ پوچھیں تو ” انڈیا نوں بس پھیرا ای پیا اے“۔
تبصرہ لکھیے