شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو متحد و مستحکم دیکھنا چاہتے تھے اور ان میں ایسی تحریک بیداری پیدا کرنا چاہتے تھے کہ جس سے یہ انگریز کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں۔
شاعر مشرق نے 21 مارچ 1932 ء کو لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں اپنے خطبے میںکہا ’’ تم دنیا میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب کے مالک ہو۔ تمہارے پاس دنیا کا بہترین نظام حیات اسلام کی شکل میں موجود ہے تم دوسروں کی تقلید کیلئے نہیں بلکہ امامت اور رہنمائی کیلئے پیدا کئے گئے ہو. بلاشبہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے تاریخ کا رخ موڑنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی قابلیت، ذہانت اور محنت سے دنیا میں نہ صرف خوشحالی، ترقی اور امن کو فروغ ملتا ہے بلکہ یہ لوگ تمام دنیا کے انسانوں کا مسیحا سمجھے جاتے ہیں۔
شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا شمار ایسی ہی عظیم اور عہدساز شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی لازوال شاعری اور دانشمندانہ اقوال کے ذریعے نا صرف انسانیت کو اس کی حقیقت اہمیت سے آگاہ کیا بلکہ خصوصی طور پر عالم اسلام کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر دنیا میں عزت و وقار کیساتھ جینے کا حوصلہ اور شعور عطاء کیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے۔ سیاست درحقیقت انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے، جسکی بدولت انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صرف شاعر ،ادیب اور سیاست دان ہی نہیںبلکہ وہ دین مصطفویٰ ؐکے داعی تھے ۔ آپ نے مسلمانوں کے جذبے اور عقیدے کو ابھارنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اور توحید، رسالت، عشق رسولؐ ، فکر آخرت ، اتباع رسول ؐ، محبت اسلاف اور عظمت رفتہ کی یاد لاکر قوم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔
دور مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گزارے اس کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی۔ جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا اس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اور اپنے ربّ کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا ، پھر گڑگڑانا اور رونا، یہی وہ چیز تھی جواس کی روح کو ایک نئی نشاط اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اور ایک نئی فکرکی غذا عطا کرتی پھر وہ ہر دن اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک نیا شعر پیش کرتے، جو انسانوں کو ایک نئی قوت ، ایک نئی روشنی اور ایک نئی زندگی کی راہ دکھاتا.
اور مسلمانوں کو ایک اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور ان سے محبت کرنے ، اور قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑ کر زندگی کو اس کے مطابق اپنانے کی ضرورت پر زور دیتا۔ اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گزاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن مجید سوچتے ، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انہیں ایک نیا یقین اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا ء درجے کا تھا، ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کے آخری مینارہیں۔
آپ فرقہ واریت، ظلم و جبر، استحصال، بے انصافی، اقرباپروری، ذات پات اور جھوٹ و منافقت کے سخت خلاف تھے جبکہ آپ ہر انسان کو آزاد، خوشحال اور تحفظ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ طالب علم کو شاہین کا نام دے کر اقبالؒ جہاں اس میں رفعت خیال، جذبہ عمل، وسعت نظری اور جرات رندانہ پیداکرنا چاہتے تھے وہیں جہان فکر وعمل میں اپنی دنیا پیدا کر نے کی تلقین کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال کو یگانے اور بیگانے سب نے خراج تحسین پیش کیا۔ یگانوں نے مسیحائے ملت حکیم الامت،شاعر مشرق مفکر اسلام ، مصور پاکستان اور خودی کا پاکستان کے القابات واعزازات سے نوازا تو بیگانوں نے انہیں علامہ اقبال اور سر کے خطاب ارزانی سے سرفراز فرمایا ۔
مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے اسلاف نے پاکستان حاصل کر کے قائد و اقبال کے خواب اور جدوجہد کو تو پورا کر دیا، مگر ان کے فلسفے کے مطابق پاکستان کی تعمیر کے بعد تکمیل کے مراحل ابھی تک ہماری کوتاہ نظری کا شکار ہیں،کیونکہ ہم نے پاکستان کی حقیقی اساس پر اس طرح کام نہیں کیا، جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ وہ مسلمانان پاک و ہند کے لئے ایک ایسی اسلامی، فلاحی و ریاست کا قیام چاہتے تھے ، جس میں مسلمان عین اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ ایسی ریاست کا خواب کہ جس کو اقوام عالم میں ایک اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر جانا جائے ، جس میں عدل و انصاف، تہذیب وتمدن، معاشرتی قدریں اور اسلام کی عملی تصویر پیش کی جا سکے ۔
تبصرہ لکھیے