آپ میں سے کتنوں کو یقین ہے کہ ہمارا نظام قانون و انصاف عمران خان پر حملہ کرنے والوں پر پوری معنویت کے ساتھ نافذ ہو گا اور جو بھی حقائق ہوں گے وہ ہمارے سامنے لائے گا؟ یہ سوال میں نے کسی نیم خواندہ سیاسی مجلس میں نہیں بلکہ ملک کی بہترین درس گاہ ، قائد اعظم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے سامنے رکھا اور طلباء بھی کسی اور شعبے کے نہیں، قانون کے تھے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کسی ایک نے بھی نظام قانون و تعزیر سے ایسی کوئی امید وابستہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے تو میں بھی سکتے کی کیفیت میں چلا گیا۔ یہ تعزیرات پاکستان کی کلاس تھی ۔ لیکچر ختم ہوا تو ایک طالب علم کے کسی سوال کے نتیجے میں یہ معاملہ زیر بحث آ گیا۔ تب میں نے یہ سوال پوچھ لیا۔ میرے سامنے وہ طلباء و طالبات تھے جنہوں نے کل عملی زندگی میں آنا ہے اور اسی قانون کے شعبے میں آنا ہے۔ لیکن اسی شعبے پر ان کے عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ پوری کلاس میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا،جو اس نظام قانون سے صرف اتنی سی خوش فہمی رکھتا کہ وہ مجرمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ اس نظام کے بارے میں اگرچہ میری اپنی رائے بھی ایسی ہی ہے لیکن میرے لیے یہ ایک پریشان کن بات تھی کہ ان بچوں نے کل جس شعبہ زندگی میںجانا ہے اس کے بارے میں ابھی سے ان کی رائے اتنی خراب ہے۔
میں نے یہ سوچ کر کہ شاید اس عمر کی جذباتی کیفیت میں وہ یہ جواب دے رہے ہوں،سوال دہرایا اور ساتھ انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ وہ قانون کے طالب علم ہیں ، سیاسی کارکن نہیں، اس لیے کسی جذباتی کیفیت سے نکل کر جواب دیں۔ لیکن اس بار بھی جواب وہی تھا اور اس جواب پر ساری کلاس کا اتفاق تھا۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ اس عد م اعتماد کی وجہ کیا ہے؟بغیر کسی تامل کے جواب ملا: سر آج تک کسی حادثے کے ذمہ دار کا تعین ہوا ہو توبتا دیجیے۔اب اس سوال کا،ظاہر ہے کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے بعد جوابات کی صورت میں دلائل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ، جو کہنے کو تو دلائل تھے لیکن حقیقت میں ہماری پون صدی کی تاریخ کا شعوری مرثیہ تھا ۔واپسی پر میں یہی سوچتا رہا کہ ہمارا بوسیدہ نظام بہت پیچھے رہ گیا اور ہماری نئی نسل آگے نکل گئی ہے۔یہ نظام اب اس نسل کے پیروں کی بیڑی تو بن سکتا ہے، نشان منزل نہیں۔
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ سماجیات پر سرے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ ہماری سیاست اور صحافت چند سطحی سے موضوعات سے بلند ہونے کی اہلیت سے،بظاہر،محروم ہے۔ مسند ارشاد جن کے ہاتھ میں ہے، نیم خواندگی یا عصبیت میں لپٹی خواندگی نے ان کی فکر کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اب روز کی بنیاد پر ایک سطحی سا موضوع چن کر انتہائی غیر معیاری سی گفتگو کرنے کوحالات حاضرہ اور دانشوری کہا جاتا ہے۔ کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس تماشے کے سماجی اثرات کیا ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ سماج کسی کا موضوع ہی نہیں۔ یہاں دکھ بھی صرف اشرافیہ کے ہیں اور سکھ بھی اشرافیہ کے۔عام آدمی یہاں گیلا کاغذ ہے، نہ لکھنے کے کام آتا ہے نہ جلائے جانے کے۔عام آدمی کی حیثیت جاننا ہو تو معظم گوندل کے لاشے اور لاشے پر کھڑے معصوم بچوں کو دیکھ لیجیے۔یا پھر آئینہ دیکھ لیجیے۔ کارپوریٹ میڈیا ، اشرافیہ کی سیاست اور نیم خواندہ معاشرہ، تینوں نے مل کر ایک مصنوعی ماحول بنا رکھا ہے۔
صبح سے شام تک لایعنی موضوعات پر بے کار سی گفتگو ہوتی ہے۔نہ سر نہ پیر نہ کوئی افادیت۔ سنیں تو متلی ہوتی ہے ، پڑھیں تو گھن آتی ہے۔ معاشرے کے بہت سارے زندہ مسائل ہوتے ہیں ، تعلیم مہنگی کیوں ہے ، انصاف سستا کیوں نہیں ، صحت خواب کیوں ہے ، وسائل مہیا کیوں نہیں ہے ، طبقاتی تقسیم کیوں ختم نہیں ہو رہی ، اس طرح کے ڈھیروں مسائل ہیں اور ڈھیروں سوال لیکن سنجیدہ موضوعات پر کون وقت ضائع کرے۔ کیا اس سے ریٹنگ ملتی ہے؟ چنانچہ کیا صحافت کیاسیاست ، ریٹنگ کی اس دوڑ نے ستیا ناس کر دیا ہے۔ اہل علم اب گوشہ نشیں ہیں، اجنبی ہو چکے ہیں ، قومی بیانیہ اب طفلان خود معاملہ کے رحم و کرم پر ہے۔ روز نئی درفنطنی ، روز نیا شگوفہ ، روز تالیوں کی تمنا ، روز تحسین کی خواہش، اس ماحول میں سنجیدہ مباحث نہ پارلیمان میں جنم لے سکتے ہیں نہ ابلاغ کی دنیا میں۔ایسے میں اب کس کو پرواہ کہ ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں نوجوان کیا سوچ رہے ہیں اور اس نظام پر ان کا عدم اعتماد کتنا پریشان کن معاملہ ہو چکا ہے اور اس کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں؟
نئی نسل اگر آپ کے نظام کو ’ اون‘ نہیں کرتی ، یا اس میں اسے اپنے خوابوں کی حدت دکھائی نہیں دیتی، وہ اس سے نا امید ہو جاتی ہے ، لاتعلق ہو جاتی ہے یا بے زار ی کے رویے جنم لے لیتے ہیں تو یہ ایک ایسا سماجی المیہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی چولیں ہلا دیتا ہے۔ اس ملک میں کوئی ہے جسے اس بات کی سنگینی کا احساس ہو۔ اس ملک کے نظام قانون کے بارے میں یہی رائے سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑے بغیر اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس نظام پر ایسا ہی عدم اعتماد جناب جسٹس اطہر من اللہ بھی کر چکے ہیں ، ایسا ہی ایک سوال جناب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب سے آصف تنبولی صاحب نے پوچھا تو جسٹس صاحب نے وہ سوال حاضرین کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ جسے اس نظام پر اعتماد ہے وہ ہاتھ کھڑا کر دے۔ ملک بھر سے وکلاء موجود تھے لیکن کسی ایک نے بھی ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ یہ عدم اعتماد معاشروں کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے ۔
جب ایک عام شہری کو اپنے نظام قانون پر اعتماد نہیں رہتا تو پھر ایک خلاء پیدا ہوتا ہے ، اس خلا میں پھر بد گمانیوں کی ہر فصل کاشت ہو جاتی ہے۔جب نظام قانون میں یہ سکت نہیں ہوتی کہ وہ مجرم کا تعین کر کے سزا سنا سکے تو پھر الزام تراشی آسان ہو جاتی ہے۔ جس کا جس پر دل چاہے ا لزام لگا دے۔جب قانون کو روندا جاتا ہے تو ساتھ ہی سماج کی خود اعتمادی بھی روندی جاتی ہے۔خود اعتمادی سے محروم سماج بذات خود کسی المیے سے کم نہیں ہوتا۔
بنیادی بات یہی ہے کہ اس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور کوئی حادثہ ہو تو فکری انتشار میں الزام تراشی کی بجائے یہ پر اعتماد رویہ سامنے آئے کہ قانون موجود ہے ، وہ مجرم کا تعین بھی کر لے اور سزا بھی سنا دے گا۔ گر یہ نہیں تو بابا ،باقی کہانیاں ہیں۔
تبصرہ لکھیے