وہ سڑک کنارے ٹریفک کے شور اور دھویں سے بے خبر سویا ہوا تھا۔ رات کی سیاہی بڑھ رہی تھی اور اسے آس پاس سے گویا کوئی دلچسپی نہ تھی۔ شبِ تاریک اس کی زندگی سے مماثل تھی کہ اس کے گرد بھی غموں کی داستانیں تھیں۔ واقعات ،داستان کا درجہ پا لیتے ہیں جب یہ کسی کے لیے کوئی معنی رکھتے ہوں۔
جو اس پہ گزری وہ لوگوں کے لیے شاید افسوس کے لائق چند واقعات ہوں تاہم یہ حادثے اس پر گہرے نقوش چھوڑ گئے تھے۔ اجالا بے معنی لگنے لگا تھا اسے کہ جو داغ داغ تھا، ایسے اجالے سے تو وہ شب اچھی کہ جس کی تاریکی اور سناٹے سے اس کی دوستی ہوچکی تھی۔ وہ کبھی محفلوں سے گبھرا جاتا تھا اور کبھی شور میں بھی پرسکون رہ لیتا تھا۔ تارکول کی بنی سڑک جو سورج کی دن بھر کی تپش سے تپ رہی تھی اس کے لیے بستر کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے سفید پیوند لگے کپڑے گرد و غبار کی وجہ سے اپنی سفیدی کھو چکے تھے بالکل ویسے ہی جیسے اسکا چہرہ جو کبھی تر و تازہ تھا۔
آس پاس کے ماحول سے بے خبر وہ نیند کی دور پار کی وادیوں میں تھا جہاں اس کی ماں کے مہربان ہاتھ روٹی کے نوالے بنانے اور پھر اسے چاہت سے کھلانے میں مصروف تھے۔ وہ اچانک چیخا اور کانپنے لگا۔ بادل گرجنے لگے اور یہ گرج اس کے دل پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگی۔ وہ مُوسلا دھار بارش کے ساتھ اپنی آنکھوں سے اشک بھی بہانے لگا۔ آخر خواب میں ماں کا لمس اور پھر جدائی جو دیکھ لی تھی۔ یہ گرجتے بادل ماں کے جانے کے بعد کی دنیا تھی اور موسلا دھار بارش اس کے دل کا حال تھا جو بتائے نہ بتایا جا سکتا تھا۔ وہ جو کبھی لاڈلا تھا اب تنہا ہوچکا تھا اور زندگی کے تھپیڑے کہ رحم نہیں کھاتے اور ساتھ یہ بادلوں کی گرج۔
اس کے بے بس آنسوؤں کے پاس بہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس کی اوقات کے مطابق غم غلط کرنے کا اس سے سستا کوئی طریقہ نہ تھا۔ بارشوں نے اب اس کا آشیانہ بھی چھین لیا ہے ۔جانے اب کب یہ زمین سورج کی تپش سے سوکھے گی اور وہ ایک بار پھر ماں کے دیدار کے واسطے اسی سڑک پر نیند کی آغوش میں جاسکے گا۔
تبصرہ لکھیے