ہوم << ہم جانور کیوں بنتے جا رہے ہیں ؟-شگفتہ راجپوت

ہم جانور کیوں بنتے جا رہے ہیں ؟-شگفتہ راجپوت

گزشتہ دنوں جب پوری قوم کرکٹ کے کھیل میں مگن ٹی وی پر نظریں جماۓ بڑھتے ہوۓ اسکور اور گِرتی ہوئی وکٹوں کا حساب رکھنے میں مشغول تھی ٹھیک اسی وقت میں لاہور شہر کے معروف و مصروف ترین علاقے (فیروزپور روڈ) میں سینکڑوں انسانوں (اگر ان سب کو انسان کہنا اور ماننا ٹھیک ہے تو)کا مشتعل ہجوم سرکاری املاک اور عوامی خون پسینے کی کمائیوں کو اپنے شدتِ غم و غصے کی نظر کرنے میں مصروف تھا,اس پُرجوش اور غیظ و غضب میں مدہوش ہجوم کا مطالبہ تھا کہ ان کے چرچ اور مِشنری اسکول پر ہونے والے خودکُش دھماکوں میں ملوث حملہ آوروں کے پیچھے موجود لوگوں کو تلاش کیا جاۓ اور ان کو نشانِ عبرت بنایا جاۓ.مطالبہ تو بالکل جائز اور حق پر مَبنی تھا اگر یہیں تک رکھا جاتا تو,کیونکہ سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جان کا ضیاع کوئی معمولی بات نہیں کہ جسے نظرانداز کردیا جاتا اور لوگ بھی وہ جو مسلم اکثریت والے ملک میں اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہوں پھر تو حکومتِ وقت کی ذمہ داری دُگنی ہوجاتی ہے کہ اپنے ملک میں بسنے والے غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرے,لیکن اس مشتعل ہجوم کو معلوم تھا کہ حکومت کسی کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی بجاۓ صرف اپنی اور اپنے آپ سے منسلک تمام جُملہ افراد کیلۓ (دہشت گردی سے بچاؤ) مہم میں اپنی تمام قوتیں اور عوام سے لُوٹا ہوا انکا خون پسینے کا پیسہ بہانے میں مصروف ہے اور مصروف رہے گی,عوام کیلۓ اس کے پاس چند ایک پھیکی تسلیوں اور دو چار روتے بسورتے دلاسوں کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر عوامی گرمی اور اتحادیوں کے حَبس سے ہمدردی کا بخار 98 ڈگری تک چڑھ بھی جاۓ تو مرنے والوں کے لواحقین کو ایسے چیکس تھمادیتے ہیں جو بعد میں کسی بھی بنک سے کیش نہیں ہوتے اور لواحقین بیچارے مزید بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں,تو پھر ایسے میں متاثرہ لوگ شدتِ غم اور بے بسی کی گُھٹن میں پاگل پن کی حدود نہ پھلانگیں تو اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے اُن سے اس پسِ منظر کے بعد؟
اس ہی پاگل پن کی کیفیت میں اس بپھرے ہوۓ ہجوم نے دو ایسے افراد کو اپنے پاگل پن کا بھرپور نشانہ بنایا جو انکی دانست میں مشتبہ تھے اور ان دھماکوں سے انکا کوئی نا کوئی واسطہ تھا.بات صرف تشدد اور مارپیٹ تک محدود رہتی تو شاید کچھ انسانیت باقی سمجھی جاسکتی تھی اس ہجوم میں مگر انہوں نے وہ تاریخ دوبارہ دھرائی جو گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں اک رواج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے,ایسا محسوس ہوتا ہے سب نے پہلے سے جیسے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ کسی بھی ایک آدھ شخص کو پکڑ کر اسے مشتبہ ظاہر کرکے پہلے خوب دل دماغ کی بھڑاس نکالنی ہے اور پھر بعد میں اسکی جان بھی.ٹھیک یہ ہی اس ہجوم نے کیا اور نہ صرف دل کی بھڑاس نکالی ساتھ ہی ان دو بے گناہوں کو زندہ آگ لگا کر ان کے جلنے,تڑپنے اور مرنے کا تماشہ نہ صرف دیکھتے رہے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے موبائلز میں ریکارڈ بھی کرتے رہے اور اس تمام وقت میں کسی ایک میں بھی زرا سی انسانیت نہ جاگی کہ ان جلنے والوں کو بچانے کا بندوبست کرتے.
آگ کی سزا دینا صرف اللہ کا حق ہے.میڈیکل سائینس اس بات پر متفق ہے کہ تمام قسم کی اموات میں سے جَل کر مرنے والی موت سب سے کرب ناک,دردناک اور وحشت ناک ہے کیونکہ جلد جو انسانی اعضاء میں سب سے بڑا عضوء ہے,درد کے ٹِشوز اس ہی میں پاۓ جاتے ہیں جو زرا سی بھی تکلیف پہنچنے پر فوراً درد محسوس کرتے ہیں اور پھر باقی جسم میں منتقل کرتے ہیں.مرنے کے بعد جہنمیوں کو آگ کے عذاب میں مبتلاکرنے کا جو ذکر قرآن و احادیث میں مزکور ہے اس میں یہ حکمت صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ عذاب کیوں اتنا شدید اور کرب آمیز ہوگا اور پھر ایک جِلد کے جَل کر ختم ہوجانے کے بعد اسکی جگہ دوسری جِلد کا آگ میں جلنا اور درد کا محسوس کرنا.
ہمارے ملک میں جلا کر مار دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے,اس سے بھی پہلے کئی مرتبہ ایسے واقعات منظر پر اُبھر کر ملکی تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوتے رہے ہیں.یہاں پر سوال یہ نہیں کہ اُن لوگوں کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی شخص کو مشتبہ سمجھ کر تشدد کریں اور باآخر جَلا کر مار دیں,یہاں سوال یہ بھی نہیں کہ اگر وہ خودکش حملے کسی مسجد اور مدرسے پر ہوۓ ہوتے اور بپھرا ہوا ہجوم کسی بھی مسلمان فرقے کا ہوتا اور جَلا کر مارے گۓ افراد اگر مسیحی ہوتے تو اس وقت ہمارے ملک میں اور ملک سے باہر کتنا شور اور واویلا کیا جارہا ہوتا اور اسلام کو مذید کتنا اور کس کس طریقے سے تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہوتا,تو پھر ایسے میں جکومت کا اور اس ملک میں بسنے والے سیکولر موم بتی برگیڈ کا کیا ردِعمل ہوتا؟
اس وقت اصل اور سب سے اہم سوال یہ جنم لیتا ہے ہم ایسے جانور کیوں بنتے جارہے ہیں؟وہ کیا محرکات اور وہ کیا اسباب ہیں کہ جنہوں نے اس ملک میں بسَنے والے لوگوں کو اتنا نفسیاتی اور ہیجانی کیفیات میں مُبتلا کردیا ہے کہ وہ خُون آشام بھیڑیۓ بنتے جارہے ہیں؟ سطحی نقطہءِ نظر رکھنے والے اونچے اونچے لوگ اس ہیجانی و نفسیاتی کیفیت کی کئی ایک تاویلیں بیان کرتے ہیں اور کچھ تو اس طرح کے حل پیش کرتے ہیں کہ اس ملک کو کمال اتاتُرک جیسے لیڈر کی ضرورت ہے,ایسے حل پیش کرنے والوں کو شاید تاریخ سے کوئی سَروکار نہیں ورنہ انہیں یہ ضرور معلوم ہوتا کہ جس اتاترک کو آئیڈیل سمجھ کر وہ ملک کو اس جیسا رہنما مل جانے کی بات کر رہے ہیں وہ اتاترک (دَومنہ قبیلہ) کا ایک یہودی تھا اور اپنے مُلک میں یہودیوں کی سازشی خُفیہ تنظیم فری میسن کے گرینڈ لاج کا ماسٹر تھا,فری میسن اور یہودیوں کی نفسیات سے واقفیت رکھنے یا سمجھنے والا کوئی بھی انسان یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ یہودی جہاں بھی اور جس رُوپ میں بھی ہو وہ سماجی طور پر بظاہر آپکا بہترین دوست ہوگا چاہے اندر سے بُوائل ہو رہا ہو لیکن چہرے پر ہمیشہ سمائل رکھے گا لیکن وہ ہر روپ,ہر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھی اندر سے رہتا ہمیشہ یہودی ہےاور صرف اپنی تعلیمات و مذہب پر کاربند ہوتا ہے اور گریٹر اسرائیل اور نیو ورلڈ آرڈر کے اپنے عالمی و وسیع ایجنڈے کو پورا کرنے کیلۓ اس موجودہ روپ میں آپ کے سامنے آپکے ملک و قوم کو بچانے والے مسیحا کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے,اتاترک موصوف بھی ایسے ہی اک یہودی تھے جنکا ایجنڈا سلطنتِ عثمانیہ اور اسلامی خلافت کا خاتمہ اور ترکی کو اسلامی تعلیمات و تہذیب سے محروم کر کے کیک کے ٹکروں کی طرح تقسیم کرنا تھا تاکہ سلطان عبدالحمید اور سلطنت و خلافت جو فلسطین کے حاکم تھے ان سے نجات پاکر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر کے وہاں یہودیوں کو بسایا جاسکے جو ہزاروں سالوں سےدنیا میں بھٹک رہے تھے, بکھرے ہوۓ تھے جنکا اپنا کوئی ملک و وطن نہیں تھا,اور پھر آنے والے وقت میں سب نے دیکھا کہ کیسے عظیم مسلم سلطنت و خلافت کو ختم کیا گیا اور ترکی کو ایک مسلم ریاست سے سکیولر ریاست بنادیا گیا.جنہیں نا یقین آۓ وہ (famous freemasons list) میں اتاترک کا یہ کارنامہ پڑھ سکتا ہے.تو کیا پاکستان کو کسی بظاہر مسیحا اور درپردہ فری میسن کے ایجنڈے پر عمل پیرا اتاترک کی ضرورت ہے جو ملک کو سکیولر بناجاۓ؟نہیں,ہرگز نہیں.ڈُوبتی اُبھرتی اس ملکی کشتی کو کنارے لگانے کیلۓ ایسے مشورے دینے والے کی سوچ اور فہم و فراست پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے یا پھر اسے کسی بہت گہری سازش کا پیش خیمہ سمجھ کر اسکی تفتیش و تحقیق کی جاسکتی ہے لیکن وہ لوگ جنہیں اللہ نے ڈرنے والا دل اور گہری نظر عطاء کی ہوتی ہے وہ أس طرح کی تمام صورتِ حال کے ہیچھے چُھپی اصل حقیقت کو پہچان لیتے ہیں.ہمارے معاشرے میں روز بہ روز پھیلتی اور بڑھتی ہوئی حیوانیت کا اصل سبب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ ہے,جسکو قرآن میں سُود کہا گیا ہے.اللہ نے سُود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سُود کا لین دین کرنے والوں کو بہت ہی سخت انداز میں یہ بات باور کروائی ہے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ جنگ ہے,اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کا مطلب ہے انسان کا پھر کوئی ٹھکانہ نہیں,کوئی اسکا حامی و مددگار نہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ ایسا کام وہ ہی شخص کرنے کی جسارت کرتا ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف موجود نہ ہو اور جسکی عقل شیطان نے مکمل طور پر اپنے قبضے میں کرلی ہو.اللہ تعالی نے اور کسی گناہ کے بارے میں ایسا اعلانِ جنگ نہیں فرمایا جیسا سُود کے بارے میں,اس سے سُود جیسے گناہ کی سنگینی اور اسکے تباہ کُن نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ایسے انسان کی بدعقلی کا پھر کوئی شُمار نہیں.بدقسمتی سے ہمارے وطن پاکستان کہ جسکی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر قائم کی گئی تھی,اس میں سُود جیسی لعنت کو زندگی کے تقریباً ہر معاملے میں ہی فوقیت حاصل ہوتی جارہی ہے اور آئی ایم ایف سے لۓ گۓ قرضوں پر سُود اتنا نہیں جتنا خود یہاں کے مقامی بنکوں سے لۓ گۓ قرضوں کا سود ہےگزشتہ سال کی بجٹ رپورٹ میں مقامی بنکوں سے لۓ گۓ قرضوں پر سُود کی ادائیگی کی مَد میں سب سے ذیادہ رقم مُختص کی گئی ہے اور اندرونی طور پر حاصل کۓ گۓ قرضوں پر 13 کھرب 25 ارب روپے سُود واجب الادا ہے,جسکی ادائیگی ظاھر ہے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا کر اور ان سے حاصل شُدہ رقوم سے کی جاۓ گی جب کہ یہ تمام بڑے بڑے قرضے بڑے لوگوں نے حاصل کۓ ہوۓ ہیں جو یا تو کبھی حکومت میں تھے یا اب ہیں یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے اسلامی جمہوریہ میں سُود جیسی لعنت کس طرح تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور ملک کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی ہے.
قرآنِ پاک میں سُودی کاروبار میں ملوث انسان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ روزِ قیامت وہ اس حال میں حاضر ہوگا کہ جیسے اُسے شیطان نے چُھوکر پاگل کردیا ہو,یہ بعد از مرگ کا حال ہے لیکن اس حالت کے اثرات مرنے سے پہلے بھی مشاہدہ کیۓ جاسکتے ہیں.
لاہور کے فیروزپور روڈ پر بپھرے ہوۓ لوگوں کی حالت بالکل اس آیت کی گواہی دیتی ہے,ان لوگوں کا پاگل پن اور جنون اور پھر انتقام میں اندھے ہوکر دو زندہ انسانوں کو جلادینا بالکل ایسے ہی تھا جیسے شیطان نے انہیں چُھوکر پاگل کردیا ہے,پھر جو انسان پاگل ہوجاۓ اسکی عقل ماؤف ہوجاتی ہے,سوچنے,سمجھنے,فیصلہ کرنے یا زندگی میں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی پہچان ختم ہوجاتی ہے.یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری افرادی قوت,ہمارے لوگ خاص کر نوجوان طبقہ بےکاری, بےروزگاری اور افلاس کا شکار ہے کیونکہ یہ قانونِ قدرت ہے میرے رب کی سُنت ہےکہ جو قوم یا فرد اپنے لۓ حرام کا راستہ ,حرام کا رزق چُن لیتا ہے اور اس پر ہی اصرار کرتا ہے تو پھر اس کیلۓ حلال کا راستہ بند ہوتا چلا جاتا ہے (جب تک کہ وہ سچی توبہ کرکے حرام سے انکار نا کردے)
قرآنِ پاک میں مزکور (یوم السبت) کا واقعہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے.اس ملک کو کسی نۓ لیڈر یا کسی نۓ قانون کی ضرورت نہیں ہے,یہاں سے سُود کی لعنت کو یکسر جڑ سے ختم کردیا جاۓ تو پھر دیکھۓ کہ کیسے برکت اور خوشحالی و سکون آتا ہے ہمارے ملک میں اور یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں.جب تک سُود کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک ہم حالتِ جنگ میں ہیں (اور یہ یقیناً سو فیصد ہماری اپنی جنگ ہے)جنگ اور امن دو متضاد حالتیں ہیں, تو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدِمقابل حالتِ جنگ میں ہو وہ امن وسکون اور عافیت میں کیسے آسکتا ہے؟پھر کہاں کا سکون اور کہاں کوئی جاۓ پناہ.اس جنگ میں ہم جانور نہ بنیں توکیا انسان رہیں؟
بچایۓ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جسکا ایندھن جن اور انسان بنیں گے.
نوٹ (یہ تحریر 2015 میں مسیحی ہجوم کے احتجاج میں دو زندہ انسانوں کو جلانے کے واقعہ پر لکھی گئی ہے اور مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے کسی بھی ادارے یا فرد کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)