ٹی وی پر ہونے والے مذاکرے مناظرے المعروف یہ ”ٹاک شوز“ سننا ضرورت نہیں۔ عادت ہے اور بالتحقیق یہ ثابت ہوا ہے کہ عادت کو ضرورت پر فوقیت حاصل ہے چنانچہ جسے دیکھو‘ ضروریات کو بھول کر عادت پوری کرنے پر تلا اور جٹا نظر آتا ہے۔
یعنی ضرورت سے مفر ممکن ہے‘ عادت سے نہیں۔خیر‘ رات ایک ٹاک شو میں عمران خان کے نعرہ حقیقی آزادی پر مباحثہ چل رہا تھا۔ ایک مہمان نے غلطی سے اصلی آزادی کی اصطلاح استعمال کر ڈالی‘ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور مذاکرہ جوں کا توں چلتا رہا حالانکہ ازخود نوٹس لئے جانے کی شدید ضرورت تھی۔مہمان نے خیال کیا ہو گا کہ اصلی اور حقیقی مترادفات ہیں اس لئے کوئی فرق نہیں پرانا شاید پرانی لغت میں یہ مترادفات یعنی مہم رفتے ہوں لیکن جدید ریسرچ کے مطابق یہ مترادفات نہیں‘ قضات اور متضاد بات ہیں یعنی دونوں کے معنوں میں بعدالمشرقین ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
ایک ”متحدہ“ اصلی ہے‘ لندن والی اور دوسری متحدہ حقیقی ہے‘ لانڈھی کورنگی والی۔ ان دونوں میں کتنے برس سے ٹنٹا چلا آ رہا ہے۔ کتنی جانیں ان کی لڑائی میں گئیں‘ کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ وہ اصلی اور حقیقی کے درمیان فرق کی خاص واضح وضاحت ہے ایک اور متحدہ درمیانی بھی ہے لیکن وہ فی الحال بحث سے خارج ہے اسی طرح سے ایک جمہوریت اصلی ہوتی ہے جس میں پارلیمنٹ آئین وغیرہ کے اور ان کی بالادستی کے لوازمات ہوتے ہیں۔ دوسری جمہوریت حقیقی ہوتی ہے جس کی سربراہی اور جس میں بالادستی پرویز مشرف یا الٰہی کے جیسے حضرات کے پاس ہوتی ہے۔ اصلی جمہوریت میں سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر ہوتے ہیں یا پھر سڑکوں پر۔ حقیقی جمہوریت میں یہ لوگ جیلوں کے اندر ہوا کرتے ہیں۔
تیسری مثال اصلی اور حقیقی آزادی کی ہے۔ اصلی آزادی وہ ہے جو ہمارے ہاں روزمرہ ہے اور ادر ادھر ہر جگہ نظر آتی ہے۔ حقیقی آزادی صرف عمران خان کے جلسوں میں نظر آتی ہے خاص طور سے جب وہ سورج ڈھلنے اور چراغ جلنے کے بعد ہوں۔ ایسے وقت میں حقیقی آزادی جو بن پر ہوتی ہے۔ پنجابی کا سہارا لیں تو اسے ”اتھری آزادی“ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ امید ہے‘ دونوں لفظوں کا ”بعد المشرقین“ واضح ہو گیا ہو گا۔حالات رہ رہ کر بدلتے ہیں چنانچہ ”حقیقی آزادی“ کی جنگ بھی بدل گئی ہے۔ اب جنگ حقیقی آزادی کے مرحلے میں نکل کر حقیقی تعیناتی تک پہنچ گئی ہے۔ خان صاحب نے حال میں جتنے بھی جلسے کئے ہیں سب سے زیادہ اور حقیقی تعیناتی کے مطالبے پر ہیں۔ اصلی تحقیقاتی کو انہوں نے صاف الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔
اصلی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہوا کرتا ہے۔ خاں صاحب کی حقیقی تعیناتی کا بین السطور مطلب یہ ہے کہ یہ تعیناتی صرف وہ یعنی خاں صاحب کر سکتے ہیں۔
حقیقی تعیناتی وہ صرف ”چیف“ صاحب کی نہیں‘ الیکشن کمشن کے سربراہ کی بھی چاہتے ہیں۔ بظاہر ان کے یہ دونوں مطالبات ”بے ضرر“ ہیں۔ حکومت اگر استعفیٰ نہیں دینا چاہتی تو نہ دے‘ قانون میں ترمیم ہی کر دے جس کی رو سے ان دونوں عہدوں پر حقیقی تعیناتی کا اختیار خاں صاحب کو دے دے۔ یقین جانئے‘ ملک پر مسلط آدھے سے زیادہ بحران تو محض اس ترمیم سے ہی ٹل جائے گا۔
عمران خاں نے اپنے اب تک کے تازہ ترین خطاب میں سیاسی جماعتوں کی حقیقی سربراہی کا مسئلہ بھی اٹھا دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا میرٹ پر عمل ہوتا تو پیپلز پارٹی کی سربراہی اعتزاز احسن اور مسلم لیگ ن کی قیادت چودھری نثار کے پاس ہونی چاہئے۔مسلم لیگ ن کی حد تک ان کی تجویز میں وہ نکتہ بھی ہے کہ نثار اگر سربراہ ہوں گے تب بھی وہ مسلم لیگ ن ہی رہے گی۔ یعنی نہ مسلم لیگ بدلے گی نہ ”ن“ بدلے گا‘ بس چہرہ بدل جائے گا۔ ویسے وہ مسلم لیگ کی سربراہی کیلئے اس سے بہتر نام بھی پیش کر سکتے تھے۔ مثلاً اعجاز الحق کا یا طارق عزیز کا۔
ارے‘ یہ موخر الذکر تو اب مرحوم ہو گئے‘ ان کا نام بس ”میرٹ“ کے حساب سے آ گیا۔ ویسے خاں صاحب کا بس چلتا تو کیا پتہ‘ وہ مونس الٰہی کو ہی مسلم لیگ ن کا صدر بنا دیتے۔ ”حقیقی سربراہی“ کی یہ بحث البتہ مزید آگے نہیں بڑھنی چاہئے ورنہ کیا پتہ کل کو شاہ محمود قریشی خود پی ٹی آئی کی حقیقی سربراہی کا سوال اٹھا دیں۔ سنا ہے کہ ان دنوں خاں صاحب اپنی پارٹی کے چار مرکزی عہدیداروں پر بڑے برہم ہیں۔ فرماتے ہیں‘ مجھے پتہ ہے کون کون ”بڑے“ گھر جاتا ہے اور پارٹی قیادت میں ”حقیقی“ جانشینی کا سماوی دے کر آتا ہے۔اعتزاز احسن سے یاد آیا‘ مریم نواز صاحبہ کی اپیل ان دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے اور فاضل ججوں نے نیب سے پوچھا ہے کہ پہلے نواز شریف پر ثابت کریں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے مالک وہی ہیں۔ نیز مریم پر بھی الزام ثابت کریں۔
یعنی الزام کا بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہے۔ معاملہ زیرسماعت ہے ورنہ اعتزاز احسن سے یہ پوچھنے کا ارادہ تھا کہ حضور‘ آپ کی اس ڈاکٹرائن کا کیا بنا جس کے مطابق الزام اگر نواز شریف پر ہو تو بار ثبوت نواز شریف پر ہے‘ الزام لگانے والے پر نہیں؟۔ نیب عدالت نے نواز اور مریم کو اسی ”ڈاکٹرائن“ کے تحت سزا دی تھی۔ کہا تھا ہم تم پر مجرم ہونے کا الزام لگاتے ہیں‘ ثابت کرو تم مجرم نہیں ہو اور چونکہ تم ثابت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہیں سات سات اور دس دس سال جیل کی سزا سناتے ہیں۔
اعتزاز کا یہ ڈاکٹرائن ”حقیقی قانون“ تھا۔ لگتا ہے کہ اب اصلی قانون سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ بہرحال‘ اس بارے میں اعتزاز احسن کی ”حقیقی ماہرانہ“ رائے کا انتظار رہے گا۔
تبصرہ لکھیے