پاکستان کا 2022 ایشیاء کپ میں سفر ، بالآخر فائنل میں پہنچ کر تمام ہوا ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے خاصی قابلِ قبول کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ ظاہر ہے کہ چھ ممالک پر مشتمل اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک رسائی اپنی جگہ ایک با عزت مقام ہے ۔
لیکن ہر مقابلے کے بعد اپنی کارکردگی کا تجزیہ کرنا اور اس سے کچھ سیکھنا ہی مزید بہتری کے حصول کا رستہ ہے۔ خود احتسابی کا رویہ اپنی جگہ ایک نعمت ہے۔
اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم نے مجموعی طور پر 6 میچز کھیلے ، جن میں سے تین میں کامیابی پاکستان کو میسر آئی اور تین میچز میں شکست مقدر ٹھہری۔
اس سب پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر ہم صرف چند اہم پوائنٹس شیئر کریں گے ۔
پاکستان کا اوپننگ پیئر ، یعنی دونوں افتتاحی بلے باز ، محمد رضوان اور بابر اعظم ، عالمی نمبر ایک اور عالمی نمبر دو بھی ہیں ۔ ان کی جوڑی نے پچھلے ڈیڑھ برس میں پاکستان کے لیے رنز کے انبار لگا رکھے ہیں ۔ پاکستانی بیٹنگ کا ٹی ٹونٹی میں دو تہائی بوجھ ان دونوں نے ہی اٹھا رکھا ہے ۔ مگر ، یہ بات بھی اسٹیٹس کا منہ چڑا رہی ہے کہ پہلے بیٹنگ پاکستان کو ملے تو یہ دونوں بلے باز ٹی ٹونٹی میں ویسی کارکردگی نہیں دکھا پاتے ، جس شاندار انداز سے یہ دونوں بلے باز ہدف کا تعاقب کرتے ہیں ۔ پاور پلے کے پہلے 6 اوورز کا بھرپور استعمال ہر ٹیم کے بیٹنگ یونٹ کی اولین ترجیح ہوتی ہے ، اوسطاً تمام اچھی ٹیمز پاور پلے میں پچاس سے پچپن رنز بناتی ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم ، پہلے 6 اوورز میں اوسطاً 40 رنز سے آگے کم ہی بڑھتی ہے۔
1990 میں ایک روزہ کرکٹ کا ایک اصول تمام ٹیمز نے اپنایا تھا، جس کے مطابق اوپنرز اور مڈل آرڈر ابتدائی چالیس اوورز میں سست روی سے بلے بازی کرتے ، اور آخری دس اوورز میں برق رفتاری سے اسکور میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاتا۔ مگر غالباً 2003 تک یہ رواج عالمی دنیا ترک کر چکی تھی ۔ اب وہ دور ہے جب پہلے اوور سے آخری گیند تک، بلے باز دفاع پر جارحیت کو ترجیح دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم ، 498 ، 481 اور 444 کے ٹوٹل ون ڈے کرکٹ میں کھڑی کر چکی ہے جبکہ پاکستان آج تک ون ڈے میں کبھی 400 کے ہندسے تک نہیں پہنچ پایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ آج ون ڈے کرکٹ میں عالمی چیمپئن ہے جبکہ ہماری کشتی دعاؤں کے سہارے چل رہی ہے ۔
شاید اس میں ہمارے کھلاڑیوں سے زیادہ کوچز کے مائنڈ سیٹ کا قصور ہے ۔ایک زمانے میں بابر اعظم ٹی ٹونٹی پاور پلے میں باؤنڈریز کی قطار سجا دیا کرتے تھے ۔
3 فروری 2019 کو جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے پانچ اوورز میں بابر اعظم نے 9 چوکے رسید کر دیے تھے، مگر پھر وہ وقت آیا جب پاکستان کے کوچ صاحبان نے پڑھانا شروع کردیا کہ اوپنر کو ون ڈے میں پچاس اوورز تک اور ٹی ٹونٹی میں بیس اوورز تک آؤٹ نہیں ہونا ، لہذا محتاط کرکٹ کھیلے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا ۔ یہ رویہ ترک کر کے بابر اور رضوان کو ان کی ذاتی ، فطری کرکٹ کھیلنے دی جائے تو شاید نتائج مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی بولنگ ہمیشہ سے مستحکم اور قابلِ تعریف رہی ہے ۔ ایشیا کپ میں بھی بولرز نے ہر موقع پر اچھا پرفارم کیا۔ ایک نہایت خوش آئند بات نسیم شاہ کی عمدہ فاسٹ بولنگ کے علاوہ ، نواز کی بہترین اور کار آمد اسپن بولنگ تھی ۔ انہوں نے اہم مواقع پر وکٹس حاصل کرنے کے ساتھ ، نہایت کفایت شعاری کا مظاہرہ بھی کیا ۔
سب سے افسوسناک اور پریشان کن نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے مڈل آرڈر نے تقریباً ہر موقع پر بے جان ہونے کا ثبوت دیا ۔ اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے چلتا آ رہا ہے ۔ اس ٹورنامنٹ میں نواز وہ واحد لوئر مڈل آرڈر بلے باز تھے جنہوں نے بعض مواقع پر قابلِ قدر بلے بازی کی، ورنہ بیش تر مڈل آرڈر نے مایوس ہی کیا ۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی اوپننگ جوڑی کے حوالے سے پالیسی میں کچھ تبدیلی نا گزیر ہے ، جبکہ مڈل آرڈر تو شاید مکمل طور پر تبدیل کیا جانا چاہیے ۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ناکامیاں سب سے اچھا استاد ثابت ہوتی ہیں ، جبکہ کامیابی کے حوالے سے انگریزی quotation ہے کہ
"Success is a bad teacher"
اب ایشیاء کپ سے پاکستان نے جو سبق سیکھا ، اس کے مطابق سے بہت سے سخت فیصلے کیے جانے چاہئیں ۔ آئندہ ماہ ٹی ٹونٹی کرکٹ کا عالمی میلہ سجنے والا ہے ، جس کی تیاری کے سلسلے میں پاکستان کو دو ہفتوں بعد انگلینڈ کے خلاف 7 میچز پر مشتمل ٹی ٹونٹی سیریز کھیلنا ہے ، جس میں متفرق اہم تجربات اور کمبینیشنز آزمائے جا سکتے ہیں ۔
تبصرہ لکھیے