ہوم << پانی زندگی ہے - رومانہ گوندل

پانی زندگی ہے - رومانہ گوندل

کائنات میں زندگی کا وجود پانی سے ہے۔ لیکن موجودہ دور میں جہاں آبادی بڑھنے سے باقی مسائل آئے ہیں وہی پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ہر ملک پانی ذخیرہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد عالمی جنگ پانی پہ ہی ہو گی یہ اتنا اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

اس لیے دنیا میں ڈیم بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میٹھا پانی ذخیرہ کرنا ہر ملک کی پالیسی کی اولین ترجیح ہے کیونکہ کسی ملک میں کتنے ہی وسائل ہوں ، پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہی پانی جب امتحان بن جائے تو یہ زندگی کا ہر رنگ ، ہر نقش مٹا دیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال اس وقت ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اسی فیصد ملک سیلاب سے متاثر ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں گھر گر چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ متاثر ہیں۔ سڑکیں ، ہوٹل ، بجلی کا نظام سب درہم برہم ہو گیا ہے۔ کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور بارشیں مسلسل جاری ہیں۔ لوگوں کے پاس بارشوں سے بچنے کے لیے بھی سر چھیانے کو خیمے تک نہیں ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ میڈیا رپوٹر بھی وہاں تک پہنچ نہیں پا رہے اس لیے میڈیا بھی یہ نہیں دیکھا رہا کہ کتنا نقصان ہو چکا ہے۔

دور تک چھا ئے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بارشوں کے موسم میں سیلاب کسی نہ کسی پیمانے پہ ہر سال آتا ہے۔ لوگ مرتے ہیں، بے گھر ہوتے ہیں، مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے ۔ پھر بارشیں روکتی ہیں ، پانی خشک ہو جاتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور پھر اگلے سال وہی کہانی دوہرائی جاتی ہے ۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے واحد راستہ ڈیم بنانا ہے، ۔ کیا ایک ڈیم بنانا، اسی فیصد ملک کو دوبارہ اسی حالت میں آباد کرنے سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔سارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک اور عوام تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ایجنذے میں رہے ہی نہیں۔ حتی کہ اس نازک وقت پہ پہ جب لوگ مر رہے ہیں تب بھی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔

کسی کو مرتے ، ڈوبتے لوگوں کا درد محسوس نہیں ہو رہا۔ اس وقت کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں حکومت میں رہ چکی ہیں لیکن ملک سیلاب اور خشک سالی کے دومیان پھنسا ہو ا ہے۔ ایک طرف پانی سیلاب کی صورت سب بہا کے لے جا رہا ہے اور دوسری طرف پانی کی کمی کے سبب ہمارے زرعی اور بجلی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ مسئلہ تو صرف بد انتظامی ہے۔ اگر یہی پانی ڈیم بنا کے محفوظ کیا جا سکے تو نہ ہی کمی رہے گی اور نہ سیلاب آئیں گئے۔ لیکن پتہ نہیں اس ملک کی قیادت کیوں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں محفوظ ہیں۔ پس تو عام آدمی رہا ہے۔

لمبی منصوبہ بندی تو اپنی جگہ وقتی طور پہ ہی سہی سیاست کو پیچھے چھوڑ کے کوئی اس عوام کے لیے نہیں سوچ رہا۔ کوئی سیاستدان چند دن کے لیے جیل میں چلا جائے تو یہ عوام سڑکوں پہ نکل آتی ہے، سڑکیں بند کر کے ، گاڑیاں جلا کے اپنے ہی ہم وطنوں کا نقصان کرنے لگتے ہیں لیکن جب یہ عوام مرتی ہے تو کون سا درد دل رکھنے والا سیاست دان نکلا ہے عوام کے لیے۔ وہ تو اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ایک پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے مسئلے ، ان کا درد سیلاب میں اپنی جان، اپنا گھر اور اپنے گھر والوں کو کھونے سے بڑا نہیں ہے۔ اس جنون کا فائدہ اٹھا کے پچھتر سالوں سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ یہ عوام کب تک سیلاب میں بہتی رہے گی، دہشت گردوں کے ہاتھوں مرے گی، مہنگائی میں پستی رہے گی۔

اور اس کے با وجود سیاست دانوں کی عظمت کے گن بھی گاتی رہے گی۔ پانی زندگی ہے لیکن موت بن رہا ہے ،، خوشحالی ہے لیکن تباہی بن رہا ہے ۔ ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے ڈیموں پہ سیاست کر کے اس نقصان سے بار بار گزرنا ہے یا اس سے بچنے کا انتظام کرنا ہے۔