پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر وفاقی وزارتِ خزانہ نے پچھتر برس میں ہونے والی ترقی کا معلوماتی جائزہ جاری کیا ہے۔پہلے اس کے اہم نکات اور پھر آگے کی بات۔ رپورٹ کے مطابق تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں نو سو اکیس صنعتی یونٹ تھے ان میں سے پاکستان کو چونتیس کارخانے ملے۔انیس سو پچاس میں قومی پیداوار کا حجم تین ارب ڈالر تھا جو آج بڑھ کے تین سو پچاسی ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
انیس سو پچاس میں پیداواری شرحِ نمو ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تھی آج لگ بھگ چھ فیصد ہے۔انیس سو پچاس میں فی کس آمدنی چھیاسی ڈالر تھی آج دو کم اٹھارہ سو ڈالر ہے۔ انیس سو پچاس میں ٹیکس ریونیو اکتیس کروڑ روپیا اکٹھا ہوا تھا۔آج اس کی شرح بڑھ کے چھ کھرب روپے سے زائد ہو چکی ہے۔انیس سو اٹھاون میں گندم کی پیداوار تین اعشاریہ پینتیس ملین ٹن تھی جو اب بڑھ کے سالانہ انتیس ملین ٹن کا ہندسہ پار کر چکی ہے۔اس عرصے میں چاول کی پیداوار اعشاریہ انہتر ملین ٹن سے بڑھ کے تقریباً گیارہ ملین ٹن ، گنے کی پیداوار ساڑھے پانچ ملین ٹن سے بڑھ کے اٹھاسی ملین ٹن، کپاس ایک اعشاریہ چھیاسٹھ ملین گانٹھوں سے بڑھ کے آٹھ اعشاریہ تینتیس ملین گانٹھ اور پانی کی دستیابی چونسٹھ ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کے ایک سو اکتیس ملین ایکڑ فٹ تک پہنچ چکی ہے۔
انیس سو تہتر میں سمندر پار پاکستانیوں نے چودہ کروڑ ڈالرزِ زرمبادلہ بھیجا تھا آج اکتیس ارب ڈالر سالانہ سے زائد زرمبادلہ سمندر پار پاکستانی بھیجتے ہیں۔ انیس سو پچاس میں پاکستان کی برآمدات کا حجم ایک سو باسٹھ ملین ڈالر تھا جو آج لگ بھگ بتیس بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔جب کہ درآمداتی حجم اسی عرصے میں دو سو چھہتر ملین ڈالر سے بڑھ کے اسی بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ قومی پیداوار کے اعتبار سے پاکستان اس وقت دنیا کی چالیسویں اور قوتِ خرید کے اعتبار سے چوبیسویں بڑی معیشت ہے۔ چونکہ رپورٹ وزارتِ خزانہ کی ہے لہٰذا اس میں صحت ، تعلیم ، دفاع کا ذکرشاید متعلقہ وزارتوں کے لیے اٹھا رکھا گیا۔البتہ جب انیس سو پچاس سے اب تک کی حیرت انگیز معاشی نمو کی بات ہو رہی تھی تو یہ بھی بتایا جا سکتا تھا کہ انیس سو پچاس میں ڈالر کی شرح تبادلہ سوا چار روپے تھی اور آج دو سو چالیس روپے کی ڈھئیا چھو کر دو سو بیس تک پہنچی ہے۔انیس سو پچاس میں اگر پاکستانی معیشت کا حجم تین ارب ڈالر تھا تو اس میں مشرقی پاکستان کا حصہ کتنا تھا اور آج اگر اس تین ارب ڈالر کو دو سو بیس روپے سے ضرب دی جائے تو کیا تصویر سامنے آئے گی۔
پھر یہ بھی مدِ نظر رہے کہ انیس سو پچاس میں متحدہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ ساڑھے آٹھ کروڑ تھی اور اس میں مغربی پاکستان کی لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ آبادی بھی شامل تھی۔آج اسی مغربی پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ کا ہندسہ چھو رہی ہے جب کہ سابق مشرقی پاکستان کی تب کی ساڑھے چار کروڑ کی آبادی آج کے بنگلہ دیش میں ساڑھے پندرہ کروڑ پر رک گئی ہے اور بنگلہ دیش کے پچاس برس کے مجموعی معاشی اعشاریے پاکستان کے پچھتر برس کے معاشی اعشاریوں سے کہیں بہتر بتائے جاتے ہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خدا کے فضل سے ہم معاشی اعتبار سے آج کئی گنا بہتر ہیں تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کیا یہ معاشی بڑھوتری پوری آبادی اور چاروں صوبوں کی معاشی حالت میں بھی بہتری لائی ہے یا پھر چند مقامات پر بالائی طبقات اور اداروں کے درمیان ہی بٹ بٹا گئی ۔اس بابت بطور کسوٹی اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے ( یو این ڈی پی ) کی عالمی سوشل انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ کو ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ پاکستان اقوامِ متحدہ کا رکن ہے ۔
آخری سوشل انڈیکس دو ہزار انیس کے اعداد و شمار کی بنیاد پر دو ہزار اکیس میں شایع ہوئی۔انڈیکس میں شامل ایک سو نواسی ممالک کی سماجی ترقی کی فہرست میں پاکستان کا درجہ ایک سو باون ہے۔دو ہزار سترہ میں یہ درجہ ایک سو اکیاون تھا۔
انڈیکس کے مطابق اوسط عمر ، تعلیم ، صحت اور خواتین کو حاصل معاشی مواقع کے اعتبار سے پاکستان کا درجہ جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان سے بلند ہے۔ اس سوشل انڈیکس میں پاکستان کی ایک سو باون ویں رینکنگ کے مقابلے میںنیپال ایک سو سینتالیسویں، بنگلہ دیش ایک سو پینتیسویں ، بھوٹان ایک سو چونتیسویں اور بھارت ایک سو انتیسویں درجے پر ہے۔ سری لنکا اس رینکنگ میں ایک سو تیسویں درجے پر تھا لیکن آج کا سری لنکا پچھلے دو برس کی معاشی مار سہنے کے سبب نئی انڈیکس میں بہت نیچے جا چکا ہوگا۔ممکن ہے اب جو سوشل انڈیکس شایع ہو اس میں پاکستان کی رینکنگ ایک سو باونویں درجے سے ایک آدھ پوائنٹ نیچے آ کے بہتر لگنے لگے لیکن آخر کتنی بہتر ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی قومی آمدنی کا حجم بھلے موجودہ تین سو پچاسی ارب ڈالر سے بڑھ کے تین ہزار ارب ڈالر بھی ہو جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اگر اس کے ثمرات صرف اشرافیہ تک ہی محدود رہیں۔ اگر ترقی ہو بھی رہی ہے تو الٹے پاؤں۔مثلاً دو ہزار پندرہ میں دعوی کیا گیا کہ غربت کی شرح پہلی بار چالیس فیصد سے کم ہو کر چوبیس فیصد تک آن پہنچی ہے۔لیکن پھر دوبار معاشی مار کے سبب انتالیس فیصد تک پہنچ گئی۔جو بھی آمدنی محصولات، ٹیکس اور قرضوں کی شکل میں دکھائی جاتی ہے وہ سود کی ادائیگی ، دفاع ، انتظامی اخراجات اور اشرافیہ کو طرح طرح کے ناموں اور اصلاحات کے پردے میں ملنے والی سبسڈی میں برابر ہو جاتی ہے۔عام آدمی کی فلاح سے متعلق سوشل سیکٹر کے لیے سو میں سے دس روپے بچتے ہیں اور ان میں سے بھی پانچ روپے دراصل خرچ ہوتے ہیں اور باقی پانچ پھر سے جیبوں میں چلے جاتے ہیں یا ہنگامی ترقی کے دکھاوی منصوبوں میں ضایع ہو جاتے ہیں۔
ایک فرق اور پڑا ہے۔پچھتر برس پہلے ہم ایک باعزت و منصفانہ زندگی شروع کرنے کے لیے نیا ملک بنانے کی آزادی مانگ رہے تھے۔اب اسی ملک کی چار دیواری میں باعزت و منصفانہ زندگی کی آزادی مانگ رہے ہیں۔اگر آزادی اسی کا نام ہے کہ کل جس کرسی پر گورا بیٹھا تھا آج اسی کرسی پر اسی پرانی چھڑی کو گھماتے ہوئے کوئی براؤن صاحب بیٹھتا ہے تو پھر تو واقعی ہم سو فیصد آزاد ہیں۔
تبصرہ لکھیے