اسلام آباد: قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ بدعنوانی کیخلاف سرگرم نیب کی ناک کے نیچے اس کے اپنے 44 افسر و اہلکار کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔
پی اے سی کے اجلاس میں پیش کئے جانے والے نیب ڈیٹا کے مطابق نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر رومان ظہیر (بی ایس۔ 19) کو کرپشن ثابت ہونے پر2016 میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر (بی ایس۔17) ثاقب فاروق کو مس کنڈکٹ اور کرپشن کے الزامات پر بطور سزا ملازمت سے نکال دیا گیا۔ گریڈ 16 کے افسر زین العابدین کوبھی انہیں الزامات کے تحت برطرف کیا گیا۔ زین العابدین نے 22 ملین روپے کی پلی بارگین کی۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر (بی ایس۔ 17) کاشف ممتاز گوندل کو غیراخلاقی حرکات کا مرتکب پائے جانے پر اس کی سرزنش کے ساتھ ایک سال کی انکریمنٹ روک لی گئی۔
نیب کا ایک نائب قاصد بھی کرپشن کا مرتکب پایا گیا اور پانچ سال کیلئے اس کی انکریمنٹ روک لی گئی۔ اس کے علاوہ نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد باقر حسین نے شریک ملزم کے ساتھ مل کر آٹھ لاکھ روپے اور آٹھ بھیڑوں کا مالی مفاد حاصل کیا، ملزم نے پلی بارگین کا آپشن استعمال کیا اور قصووار ٹھہرا۔
تفتیشی افسر اسامہ یونس نے63 ملین روپے کی پلی بارگین کی اور کیس کی دسمبر 2021 میں منظوری دی گئی۔ نیب کے چند افسروں کے خلاف انکوائری بند کرکے انہیں انکے اصل محکمے میں واپس بھیج دیا گیا، بعض نیب افسران کیخلاف انکوائری تاحال جاری ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ رپورٹ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جن افراد کو کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ خود کرپشن کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
انہوں نے نیب کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پہلے ہی اس امرکی نشاندہی کر چکے ہیں کہ نیب کس طرح سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے