امریکہ سے اداس کن خبر ہے کہ وہاں نہ صرف اخبارات کی تعداد اشاعت کم ہورہی ہے بلکہ کم اشاعت اور سکڑتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے اخبارات بند بھی ہو رہے ہیں۔ 2005ء سے اب تک ہر ہفتے دو اخبار بند ہو رہے ہیں۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ صرف اخبار ہی نہیں، ماہانہ رسالے بھی بند ہو رہے ہیں اور ان کی سرکولیشن میں بھی ڈرامائی کمی ہوئی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کے ساتھ نسل در نسل ایک صدی سے بھی زیادہ دنیا بھر کے قارئین کا رومانس رہا ہے۔ چند ہی عشرے پہلے تک اس کی اشاعت کروڑوں میں تھی، اب محض ملینز میں ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے انقلاب برپا کر دیا ہے، ٹی وی اس سے پہلے ہی بڑی حد تک مطبوعہ میڈیا کی جگہ پُر کر چکا تھا۔ نئی نسل کے لیے اخبارات کا زوال اتنا معنے نہیں رکھتا لیکن ہماری نسل نے تو آنکھ ہی اخبارات اور رسائل کے انبار میں کھولی تھی، ان کے لیے یہ امکان کہ پرنٹ میڈیا کے عروج کا دور گزرنے کو ہے، ویسا ہی المیہ ہے جیساسٹیم انجن والی ریل گاڑیوں پر سفر کرنے والوں کے لیے یہ خبر کہ سیٹی بجاتے انجن اب تاریخ کے پروگرام کا حصہ بن گئے۔
عشرے سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بھارت کے مشہور اور قدیم اردو اخبار ہند سماچار کے دو صحافی نوائے وقت لاہور کے نیوز روم تشریف لائے۔ باتوں باتوں میں ان سے ہند سماچار کی تعداد اشاعت کا پوچھا۔ انہوں نے سوال کا جواب گول کر دیا البتہ یہ معنی خیز فقرہ کہا کہ ہمارا ایک خریدار مرتا ہے تو ہماری تعداد اشاعت میں ایک کی کمی ہو جاتی ہے۔ یعنی اس کا متبادل خریدار نہیں ملتا۔
لیکن یہ پرنٹ میڈیا کے زوال والا معاملہ نہیں تھا بلکہ بھارتی پنجاب اور ملحقہ علاقوں یعنی دلی، ہماچل اور ہریانہ میں اردو جاننے والی نسل کے بتدریج اختتام کی طرف اشارہ تھا۔ تقسیم ہند کے وقت یہ سارا علاقہ ہندی گورمکھی پڑھنے والوں کی اکثریت کے باوجود ’’اردو‘‘ کا گڑھ شمار ہوتا تھا۔۔ اردو پڑھنے والے ہندو اور سکھ دو نسلوں تک بڑی تعداد میں تھے، پھر کم ہوتے گئے اور اب اتنے کم رہ گئے اور نئی نسل اردو سے یکسر لاتعلق ہو گئی کہ اردو اخبارات کے قاری جمود کے خانے میں بند ہو گئے۔ جو مر گیا، اس کی جگہ لینے والا کوئی نہیں۔
جالندھر امرتسر اور ہریانہ سے اردو اخبارات اب بھی نکلتے ہیں لیکن تعداد اشاعت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اردو اخبارات بھارت بھر سے نکلتے ہیں اور ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔ یوپی، بہار، مدھیہ، راجستھان ، مہاراشٹر آندھرا ہر صوبے سے یہ اخبار چھپتے ہیں لیکن راشریہ سہار اور سیاست کے علاوہ، کوئی بھی اخبار کثیر الاشاعت نہیں۔ بس محدود اشاعت، محدود اشتہارات، ایک گزارا ہے، ایک بھرم ہے، قدیم زمانے سے شہرت رکھنے والے اخبارات کب کے بند ہو چکے۔ مشہور ترین الجمعیت، بھی جماعت اسلامی کا ’’دعوت‘‘ بھی اب ویب اخبار بن چکا ہے، چھاپہ خانے سے کب کی بدائی ہو چکی۔
باقی اخبارات البتہ امریکہ یورپ کے برعکس پھل پھول رہے ہیں، بھارت کا مین سٹریم پرنٹ میڈیا انگریزی اور ہندی دو زبانوں سے عبارت تھے۔ انگریزی کے اخبارات لاکھوں میں چھپتے ہیں۔ سب سے پہلے اخبار ٹائمز آف انڈیا کی اشاعت 22,21 لاکھ ہے، دوسرا بڑا اخبار دی ہندو، تیسرا بڑا انڈین ایکسپریس ہے۔ ہر درمیانے اور بڑے شہر سے درجنوں سے بھی زیادہ انگریزی اخبار نکلتے ہیں۔ ہندی زبان کے اخبارات کی تو گنتی ہی بہت زیادہ ہے۔ دہتک بھاسکر، دسِک جگران سمیت بہت سے اخبارات ملینز کے حساب سے چھپتے ہیں۔ دوسرے درجے کے اخبارات لاکھوں میں اور تیسرے درجے کے ایک لاکھ سے کم۔
علاقائی زبانوں میں سب سے زیادہ ااشاعت بنگالی، تامل، ملیالم، پنجابی، اڑیا، نیلگو، مراٹھی اور گجراتی کی ہے۔ ننھّے منے بھارتی پنجاب (کل آبادی دو کروڑ بمقابلہ پاکستان پنجاب آبادی 10 کروڑ) میں درجنوں پنجابی اور ہندی اخبارات نکلتے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات کی کل اشاعت سے زیادہ محض بھارتی پنجاب کے اخبارات کی اشاعت ہے۔ پنجابی اور ہندی کے ان اخبارات کے علاوہ جو امرتسر، چندی گڑھ، شملہ ، موہالی وغیرہ سے نکلتے ہیں، بھارت بھر سے انگریزی اور ہندی کے اخبارات بھی یہاں پہنچتے ہیں جو کثرت سے خریدے اور پڑھے جاتے ہیں۔
بھارت میں اردو بولنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے وہاں اردو اخبارات کی تعداد اشاعت خاصی ہونی چاہیے اور یہ بات یاد رہے کہ صرف یہ دس کروڑ نہیں، بلکہ بارہ کروڑ کے لگ بھگ دوسرے مسلمان بھی اردو لکھ پڑھ اور بول سکتے ہیں اردو جن کی مادری زبان نہیں گویا۔ اردو اخبارات کی مارکیٹ 22 کروڑ ممکنہ صارفین تک پھیلی ہوئی ہے اور چند کروڑ ہندو کو بھی اسی مارکیٹ میں علاوہ انڈین ہیں جو اردو پڑھ سکتے ہیں لیکن عملاً اردو اخبارات و جرائد کی تعداد اشاعت اتنی کم ہے گویا مارکیٹ کا حجم محض ایک کروڑ صارفین (قارئین) تک محدود ہو۔ یہ بھارت اور بھارت میں اردو کا المیہ ہے۔
یہ غنیمت ہے کہ ہر بھارتی ریاست اردو میں سرکاری جریدے چھاپتی ہے۔ ان میں سے بعض کا معیار بہت اچھا ہے، کچھ جریدے بھارت کی وفاقی حکومت بھی شائع کرتی ہے اور ان میں اُردو کے رسالے بھی شامل ہیں۔ امریکی محکمہ اطلاعات دہلی سے (SPAN) کے نام سے عالمی معیار کا بہت خوبصورت ، نہایت قیمتی کاغذ پر چھاپتی ہے۔ اس رسالے کا ہر صفحہ چار رنگوں میں ہوتا ہے۔ سات یا آٹھ زبانوں میں چھپتا ہے جن میں ایک اردو بھی ہے۔ اردو ایڈیشن کا نام ’’اسپین‘‘ ہے۔ بھارتی اردو میں اور کراچی میں بھی ’’اس‘‘ سے شروع ہونے والے انگریزی نام سے پہلے الف لگا دیتے ہیں جیسے اسکول، اسپتال، اسی طرح انگریزی ''SPAN'' کو اردو میں ’’اسپین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی اردو بھارت کی چند بڑی زبانوں میں ہے لیکن اسے دو باتوں نے مارا۔ ایک مسلمانوں کی بالعموم غربت نے دوسرے اردو کو دبانے کی دانستہ ریاستی کوشش نے۔ بی جے پی کے دور میں تو اردو سے نفرت جنوں بن گئی ہے۔
پاکستان میں بھی پرنٹ میڈیا کی صورتحال ماضی جیسی اچھی نہیں رہی۔ اڑھائی عشرے قبل ملک کی آبادی آج سے آدھی تھی۔ اس حساب سے آج اخبارات کی اشاعت دوگنی ہونی چاہیے لیکن یہ بجائے بڑھنے کے کم ہوئی ہے اور اڑھائی عشرے پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی رہ گئی ہے۔ وجہ محض الیکٹرانک میڈیا کا عروج نہیں ہے بلکہ غربت بھی ہے۔ قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے۔
ورنہ سوچنے کی بات ہے، بھارت بنگلہ دیش اور عرب ممالک میں اخبارات کی اشاعت کم کیوں نہیں ہوئی۔ امریکہ میں اخبارات بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن یورپ میں اتنے نہیں۔ باقی دنیا میں بھی بیمار کا حال ابھی اچھا ہے۔ صرف پاکستان میں سب سے زیادہ زوال آیا ہے۔
تبصرہ لکھیے