کوئٹہ( بلوچستان) میں دو بہت خوشگوار دن گزارنے کا موقع تو وہاں کی شاندار یونیورسٹی Butiemsکے تیسرے لٹریچر فیسٹیول کی معرفت ملا مگر اس کا شکریہ اُن کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام بھائیوں کی خدمت میں بھی واجب ہے کہ یہ تجربہ میری توقع سے کہیں زیادہ خوشگوار، حوصلہ افزا اور دل خوش کن تھا.
اللہ بھلا کرے ہمارے میڈیا اور سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کا کہ جن کی بنائی ہوئی تصویر کے مطابق وہاں جانا آگ میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز کے دوسرے صوبوں بلکہ دنیا بھر میں نسل، رنگ، قومیت ، زبان ، وسائل، بے انصافی اور بعض بالکل مقامی مسئلوں کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی ناراضی کا اظہار بوجوہ مختلف قابلِ اعتراض اور تشدد آمیز رویوں سے کرتے ہیں اور اگر ان میں ہمسایہ ممالک اور عالمی سیاست کے ناخداؤں کی شمولیت بھی ہوجائے تو یہ تصویر مزید گہری اور گنجلک ہوجاتی ہے ۔
ہمارا پیارا صوبہ بلوچستان بھی اپنی جغرافیائی نوعیت، معدنی وسائل، قبائلی تضادات، غربت، معاشرتی بے انصافیوں اور غیر ملکی مدد اور پراپیگنڈے کی وجہ سے مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہے مگر اس کی جو منفی تصویر ہمارامیڈیا سیاسی مبصرین اور حکومتی بزرجمہر کثرت اور تسلسل سے دکھا رہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے اور وہاں دو دن گزارنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اگر صرف یہ سارے آگ لگانے والے ادارے ان ٹھنڈے چشموں ، آبشاروں اور محبت اور سادگی کے دریائوں کا بھی مناسب اور جائز ذکر اپنا شعار بنالیں تو غلط فہمیوں ، مفادات اور بیرونی اثرات کا یہ پہاڑ زیادہ سے زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی شکل میں باقی رہ جائے گا۔ جنہیں دو طرفہ محبت اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مزید کم ہی نہیں بلکہ تحلیل بھی کیا جاسکتا ہے ۔
کوئی ایک ماہ قبل جب مجھے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق بازئی کا پیغام ملا کہ وہ کورونا کی و جہ سے دو سال تک معطل رہنے والے لٹریچر فیسٹیول کا احیا کررہے ہیں اور اس ضمن میں وہ میری شمولیت کے خواہش مند ہیں تو اگرچہ میں 2018ء کے پہلے فیسٹیول میں شمولیت کا خوشگوار تجربہ رکھتا تھا میرے سامنے ایک دم کوئٹہ اور بلوچستان سے متعلق مختلف حوالوں سے منفی خبروں اور خدشوں کا ایک خطرناک منظر صورت پذیر ہونے لگا اور اگرچہ میں مرزا داغ کے مصرعے کے مطابق خاطر سے یا لحاظ سے مان تو گیا مگر ہوائی جہاز کے کوئٹہ ایئر پورٹ پر اُترنے تک ایک نامعلوم سا ڈر بھی ساتھ ساتھ مائلِ پرواز رہا ۔
بے مثال مقررہ، دانشور اورمیری بہت عزیز اور محترم دوست ڈاکٹر، عارفہ سیدہ بھی میرے ساتھ تھیں اور وہ بھی میری طرح چار پانچ سال کے وقفے سے جارہی تھیں۔ پہلی خوشگوار مسرت ایئر پورٹ میں کی جانے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر ہوئی جو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ وسیع اور خوب صورت تھا۔ برادرم سرور جاوید یونیورسٹی کے خیر مقدمی عملے کے ساتھ سراپا مسکراہٹ بنے ہمارے منتظر تھے نوجوان پروفیسر شاہ رخ نے بتایا کہ یونیورسٹی کا کیمپس بھی نزدیک ہی ہے لیکن یہ ہماری اُس جائے قیام سے مختلف سمت میں ہے جہاں میں اس سے پہلے کئی بار ٹھہر چکا تھا کہ یہ جگہ ہر اعتبار سے بہت معقول تھی ،البتہ کچھ عرصہ قبل اس کی پارکنگ لاٹ میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد داخلے کی کارروائیاں اور زیادہ سخت کردی گئی تھیں۔
ادبی میلے کے افتتاحی اجلاس میں ’’ثقافت آج اور کل‘‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ نما گفتگو رکھی گئی تھی جو تھی تو ڈاکٹر عارفہ اور میرے درمیان مگر اس میں کھچا کھچ بھرے ہوئے خوبصورت اور وسیع ہال میں طلبہ و طالبات اور دیگر احباب سب کے سب ایک طرح سے شریک تھے کہ ثقافت کسی قوم کی اجتماعی تہذیب کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک مقامی وجود بھی رکھتی ہے، بہت سے والنٹیرجن میں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے لوگ بھی شامل تھے بہت ذمے داری اور خوش دلی کے ساتھ اپنے اپنے حصے کا کام کررہے تھے، علامہ صاحب نے کہا تھا۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
تو سچی بات یہ ہے یہا ں احبابِ کہستانی نے ڈسپلن اور مہمان داری ، دونوں کی حد کردی ان کی سادگی اور انسانی مساوات کا یہ منظر بے حد روح پرور تھا کہ آقا و غلام، بڑے اور چھوٹے ، کمزور اور طاقتور سب معاشرتی سطح پر ایک دوسرے کی عزت نفس کا احترام کرتے ہیں اور جس طرح ہماری طرف کے لوگ اپنے نام نہاد اعلیٰ عہدوں کی بنا پر خود بخود اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھنے لگتے ہیں یہاں اُس طرح کی صاحبی کے لیے سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
دوسری خوب صورت اور حوصلہ افزا بات طلبہ و طالبات کا ڈسپلن ، دلچسپی، علم و ادب سے محبت اور دانش کا احترام تھا جس بڑی تعداد میں اور جس انہماک سے انھوں نے مقررین کی باتوں کو سنا اس کی داد اُن کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور وی سی صاحب کو بھی ملنی چاہیے، پانچ ہالوں میں دو دن کے اندر 45کے قریب سیشن ہوئے جن میں سو سے زیادہ مہمان مقررین نے اپنے اپنے موضوع کے مطابق بہت عمدہ ، گہری اور تخلیقی انداز کی باتیں کیں۔
پہلے دن کا آخری سیشن اُردو مشاعرہ تھا جہاں برادرم سرور جاوید ، بیرم غوری اور محسن شکیل سمیت دانیال طریر مرحوم کی تینوں بہت ذہین ،علم دوست اور شاعر بہنوں سے بھی ملاقات رہی، ان سمیت اس سفر کے دوران محسن شکیل کی بیوروکریٹ بیٹی اور برادرم حامد عتیق سرور کی عزیزہ جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے سے بھی ملنا ہوا ان سب بچیوں کی ذہانت ،اعتماد، ترقی اور خود اعتمادی کو دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ میڈیائی اطلاعات کے مطابق تو وہاں لڑکوں کو بھی ترقی کرنے کے مواقعے نہیں ملتے۔
جس محبت اور کشادہ دلی سے ان دوستوں نے اپنے مہمانوں کا خیال رکھا اور اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ مقامات حاصل کرنے کے باوجود اپنی فطری سادگی کے ساتھ ساتھ ادب سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا اس کا بہت ہی رُوح پرور احساس لے کر ہم لوگ وہاں سے لوٹے ہیں اور تمام اہلِ وطن کو جو سیاست اور میڈیا کے حوالے سے عموماً ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار رہتے ہیں.
یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور اُس کے لوگوں کی جو تصویر ہمیں دکھائی جاتی ہے یہ علاقہ اور اس کے لوگ عمومی طور پر اس کے مقابلے میں بہت مختلف ، محبت اور عزت کرنے و الے اور کچھ سچ مچ کی حق تلفیوں کا شکار ہیں، سو لازم ہے کہ ان کے جائز گِلے دُور کیے جائیںاور ان کو وہی عزت اور مقام دیا جائے جو کوئی بھی پاکستانی اپنا حق سمجھتا ہے۔
تبصرہ لکھیے