آج کی تازہ اور افسوسناک خبر یہ ہے کہ “ووٹ کو عزت دو” بیانیے کے خالق جناب نواز شریف صاحب نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرفکو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ میاں صاحب کی اس “اعلیٰ ظرفی” سے چند ہی گھنٹے قبل ایسی خواہش کا اظہار فوج کے ترجمانکیطرف سے سامنے آیا تھا۔
اور اس سے بھی پہلے یہ خواہش ہمیشہ “تاریخ کے درست سمت” پر کھڑے رہنے والے خواجہ آصف کیبھی رہی۔ یہ معافیاں اور این آر اوز پاکستان کی سیاست میں معمول کی بات ہے۔ لیکن اِس بار نواز شریف صاحب کی طرف سے یہاعلان اس لئے بھی افسوسناک تھا کہ پوری مسلم لیگ اور ان کے بعض اتحادیوں مثلاً مولانا فضل الرحمن وغیرہ نے جس جذبے کےساتھ ووٹ کو عزت دلانے کے وعدے کئے تھے اُن پر اِن جماعتوں کے کارکنان بڑے مطمئن اور پرامید نظر آ رہے تھے۔ ان کارکنان کا خیالتھا کہ ماضی کی تمام غلطیوں اور غیر جمہوری اقدامات کے گناہ اس بیانیے کی کامیابی کے ساتھ ہی دھل جائیں گے۔
لیکن میاں صاحب نے اِن کارکنان کے سارے ارمان ہی دھو ڈالے۔ میاں صاحب کی یہ مبینہ اعلیٰ ظرفی ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پوری مسلملیگ نون کی طرف سے یہ اعلان شکست ہے۔ موجودہ حکومت کیطرف سے اعلانِ شکست ہے کیونکہ میاں صاحب کی ٹویٹ کے بعد ان کےاہم اتحادیوں کیطرف سے کوئی مذمتی بیان نہیں آ سکا۔ پیپلز پارٹی جو اس بات کا کریڈٹ لیتی رہی کہ بے نظیر کے مبینہ قاتل اورآئین شکن پرویز مشرف کو پاکستان سے نکالنے کا عظیم کارنامہ انہی نے انجام دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے آئین کے اسباغی کو گارڈ آف آنر دے کر اسی وقار کے ساتھ رخصت کیا تھا جس وقار کے ساتھ اب نواز لیگ اسے واپس لانے کے لئے بے چین ہے۔وہی پیپلز پارٹی بھی آج افسوسناک خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے۔
ہماری سیاست میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو پیچھے دیکھنا بند کرنا ہوگا۔ اگر ہم بہت دور تک نہ جائیں اور صرفپچھلے دس پندرہ سالوں کی سیاسی تاریخ کا ہی جائزہ لیں تو یہ بات ہم پر واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم لیگ نون غیر جمہوریاقدامات میں تحریک انصاف سے بالکل پیچھے نہیں رہی۔ فوجی عدالتوں سے لے کر نواز شریف کی مبینہ اعلیٰ ظرفی تک ہر ہر موقع پرمیاں نواز شریف اور مسلم لیگ نون کیطرف طاقت کے غیر جمہوری مراکز کو یہ پیغامات ہی دئے جاتے رہے کہ مجھ پر کرم کیجئیےمیرے چارہ ساز کچھ۔
لیکن اس پورے عرصے میں جماعت اسلامی کا سیاسی کردار بڑا زبردست رہا۔ فوجی عدالتوں کی مخالفت، فوجی آپریشنز کی مخالفت،شہری حقوق کی پامالی کے لئے ہر قسم کی قانون سازیوں کی مخالفت، غیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت وغیرہ وغیرہ۔ جماعت اسلامی نے ان اہم موقعوں پر جو کردار ادا کیا وہ قابلتحسین بلکہ قابل تقلید ہے۔ خود عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر امیر جماعت کا موقف بالکل واضح تھا کہ یہ تحریک محض چہرےبدلنے کی تحریک ہے، نظام وہی ہے وہی رہے گا۔ جماعت اسلامی کی اسمبلیوں سے باہر اور اسمبلیوں میں موجود قیادت نے ہر اہم موقعپر سلیکشن کے مراکز کے بجائے عوام کی صف میں کھڑا ہونے کی ترجیح دی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب غیر جمہوریاقدامات اٹھائے جا رہے تھے تو باقی جماعتیں لائن میں لگ کر تحریک انصاف کا ساتھ دیتی رہیں جبکہ جماعت اسلامی مخالفت کےساتھ ساتھ ٹھیک اور آئینی موقف بھی پیش کرتی رہی۔
لاپتہ افراد کے معاملے پر جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی۔ خود علی وزیر کے پراڈکشن آرڈرز کے معاملے میں محسن داوڑ وغیرہ نےاتنی آواز نہیں اٹھائی جسطرح سینیٹر مشتاق احمد صاحب مسلسل اس پر سینیٹ میں بات کرتے رہے۔ ابھی کل ہی حامد میر کےساتھ کیپٹل ٹاک میں گفتگو کے دوران سینیٹر مشتاق صاحب نے جماعت اسلامی کی پوزیشن بالکل واضح کردی کہ جماعت اسلامیکسی صورت اس کے حق میں نہیں ہے کہ پرویز مشرف، راؤ انوار اور احسان اللّہ احسان کے لئے ایک قانون ہو اور علی وزیر کے لئےدوسرا ۔۔۔۔۔۔
یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں بار بار ان قوتوں کے سامنے جھک جاتی ہیں جن کیوجہ سے پاکستان میںجمہوریت نہیں پنپتی۔ پرویز مشرف اُن میں سے ایک ہیں، انہوں نے ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کیا، بارہ مئی جو پاکستانی تاریخ کےسیاہ دنوں میں سے ایک ہے وہ کارنامہ پرویز مشرف نے اپنے اتحادی متحدہ قومی موؤمنٹ کے ساتھ ملکر انجام دیا، باوردی صدر رہکر مسلسل آئین کی توہین کرتے رہے، اکبر بگٹی اور کئی اور بلوچ اور پشتوں رہنماؤں کو قتل کروایا اور کئی سارے اور مظالم ہیں جنکی ایک لمبی لسٹ ہے۔ نواز شریف کیطرف سے ایسے مجرم کے لئے معافی اور خواجہ آصف کیطرف سے ان کے لئے پورے وقار کےساتھ زندگی گزارنے کی خواہش دراصل اُن مظلوموں شہریوں کے ساتھ عظیم خیانت ہے جن کو نواز شریف وغیرہ سے بڑی امیدیںتھیں۔
تبصرہ لکھیے