ابھی کچھ ہی دن پہلے ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی شہادت کا دن گزرا ہے۔ کچھ یادیں تازہ ہو گئی۔ کچھ باتیں یا د آگئی۔ ڈاکٹر نذیر شہید کوئی بڑے زمیندار ، وڈیرے یا کوئی بڑے کاروباری شخصیت نہیں تھے۔ عام سے آدمی تھے۔ طب کے پیشہ سے منسلک تھے۔
لیکن تحریک اسلامی کے ایک پسندیدیدہ شخصیت اور بڑے آدمی تھے۔دینی تحریکوں کا ہر کارکن ایک ہیرا ہوتا ہے ،مگر ایسے بڑے آدمی کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ غریبوں اور عام آدمیوں میں رہنے والے تھے۔ کردار اور گفتارکے غازی اور ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ دو نامی گرامی بھائی تاریخ میں گزرے ہیں۔ ایک دریائے سندھ کے خیبر پختونخواہ والے حصے میں ڈیرہ اسماعیل خان کے نام سے او دوسرا بھائی دریائے سندھ کے پنجاب والے حصے میں ڈیرہ غازی خان کے نام سے مشہور ہوئے۔
راقم ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے سن اسی(80) کی دہائی میں کراچی سے ملتان میں تبدیل ہو کر گئے۔ وہاں جماعت اسلامی ملتان کے امیر ڈاکٹرمحمد اعظم فاروقی کے پاس جا کر اپنے ملتان آنے کی اطلاع دی۔ جماعت کے رفقاء سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی۔ایک دن ملتان شہر کے مشہور سماجی اور سیاسی شخصیت عقیل صدیقی جو جماعت اسلامی ملتان شہر کے امیر بھی رہے ہیں نے کہا کہ ڈاکڑ نذیر شہد کے بھائی میاں رمضان کے پاس تعزیت کے لے ڈیرہ غازی خان چلتے ہیں ۔ اسی کی دہائی میں ملتان سے ڈیرہ غازی خان جانے کے لیے تونسہ شریف کے راستے جانا پڑتا تھا۔ درمیان میں پل نہیں بنا تھا۔ ہمارے پاس جیپ تھی اس لیے ہم نے دریائے سندھ کے متوقع پل والے ریتلے راستہ ہی استعمال کر کے ڈیرہ غازی خان پہنچے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید علاقہ کے عوام کے اندر رہنے والے، ان کے مسائل حل کرنے والے، ان کے دکھ درد میں شامل رہنے والے تھے۔ لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ سید ابو الا اعلیٰ مودودیؒ کے مطابق مرجع خلائق قسم کے آدمی تھے۔ مرجع خلائق سے مراد وہ شخص کے عوام جس سے ہر معاملے میں رجوع کرتے تھے۔ ان کی کتاب ڈاکٹر نذیر شہید میں ایک واقعہ پڑھا کہ ملاقتوں کے دوران کسی مسجد میں نماز کے بعد نمازیوں کو درس قرآن دیا۔ مسجد کے امام کو پتہ چلا تو کہا کہ ڈاکٹر نذیر نے اس مسجد میں درس قرآن دیا ہے، لہٰذا یہ مسجد ناپاک ہو گئی ہے۔چند دن بعد ڈاکٹر نذیر شہید نے اس مسجد کو پانی دے دھونا شروع کیا۔ امام صاحب تشریف لائے اور کہا یہ کیا کر رہے ہو اور تم کون ہو۔
ڈاکٹر نذیر شہید نے کہا کہ امام مسجد صاحب نے کہا کہ میرے درس دینے سے یہ مسجد ناپاک ہوگئی ہے اس لیے میں اس کو پاک کرنے کے لیے پانی سے دھو رہا ہوں ۔ ایسا ہی ایک اور واقع بھی پڑھا کہ ایک بیوہ کے بچی کی شادی کے موقعہ پر جہیز نہیں تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے اپنے بچی کی شادی کے لیے جو جہیز بنا رکھا تھا وہ اس بیوہ کی بچی کو دے دیا۔
ڈاکٹرنزیر شہید نے 1971ء کے الیکشن میںپیپلز پارٹی کے صابق صدر فاروق لغاری کے والد صاحب کو عام انتخابات میں شکست دی تھی۔ ڈاکٹر نذیر شہید جودہ پارلیمنٹ کے اندر موجودجماعت اسلامی کے مولانا چترالی اور سینیٹ میں مشتاق احمد خان کی طرح 1971ء کی پارلیمنٹ پر چھائے رہتے تھے۔ فسطائی طرز حکومت کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان تنقید کی وجہ سے ان سے ناراض رہتے تھے۔ اپنے ظالم گورنرپنجاب غلام مصطفٰے کھر کو ڈاکٹر نذیر شہید کو راستے سے ہٹانے کا حکم صادر کیا۔ مصطفیٰ کھر نے اپنے غنڈے کے ذریعے مطب میں بیٹھے ڈاکٹر نذیرشہید کو بے قصور ختم کردیا گیا۔
مکافات عمل دیکھیں، بھٹوکے قصوری کے قتل کاآڈر جاری کرنے کی وجہ سے عدالت سے پھانسی کاحکم جاری ہونے پر سزا پائی تھی۔مصطفیٰ سیاست میں قصہ پارنیہ بن گی۔گوادر کے لوگوں کے حقوق بلوچستان حکومت نے ضبط کر رکھے ہیں۔ اس کے ساحلوں پر بڑے بڑے ٹرالر مچھلیوں پکڑ کر ان غریب مچھروں کا استحصال کرتے ہیں۔ حکومتیں ان ٹرالے والوں سے ملی ہوتی ہیں۔انٹرنشنل اسٹنڈرڈ کی گوادر پورٹ بنی ۔گوادر انٹرنیشل ایئر پورٹ بھی بنا۔ مگرگوادر کے شہریوں کے لیے پینے کے پانی کو خاطر خواہ کا انتظام نہیں۔ مولانا ہدایت اللہ جو سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔ جو ایک غریب مچھرے کا بیٹا ہے۔ جو مولانا سیدمودددیؒ کا مرجع خلائق ہے۔ مولانا ہدایت اللہ نے عوام کو سا تھ ملا کر مہینوںگوادر حقوق تحریک چلائی۔
بلوچستان کے ویر اعلی ٰ گوادر تشریف لائے۔ گوادر کے مظلوم عوام کے حقوق تسلیم کر کے معاہدہ کیا۔بلدیاتی الیکشن میں گوادر کے سارے قوم پرستوں اور وڈیروں کے اتحاد کو اکیلے مولاناہدایت اللہ نے شکست دی۔ گوادر کے بلدیاتی اداروں میں مولانا ہدیات اللہ کے ساتھیوں نے سارے قوم پرستوں اور وڈھیروںکو گوادر سے باہر کر دیا۔اس طرح جماعت اسلامی کے امیر انجینئر نعیم الرحمان نے کراچی میں’’ حق دو کراچی کو‘‘ مہم چلا رکھی ہے۔ کراچی جو پاکستان کو ستر(70) فی صد اورصوبہ سندھ کو نوے(90) ریونیو کما کے دیتا ہے۔ اُسی کراچی کے عوام آج بجلی کو ترس رہے ہیں۔ مہنگاہی نے ناک میں دم کیا ہوا۔ پانی موجود ہے مگر نلوں میں نہیںآ رہا۔ ٹینکر مافیا کے ذریعے عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر مل رہا ہے۔
صحت کا فقدان ہے۔ سیورج کا نظام ختم ہو چکاہے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ کھڈے پڑے ہوئے ہیں ۔تعلیم کا نظام درم برہم ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول سے باہر ہے۔ وفاق نے پانی کے منصوبے کے فور کے لیے فنڈ مختص کیے ہیں۔ مگر یہ سارے کام کراچی پر چالیس سال سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے نہیں کیے اب کیا کریں گے؟ لہٰذا کراچی کے عوام جماعت اسلامی کے امیر کے ساتھ مل کر یہ حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔ عوام پہلے بھی جماعت اسلامی کی پبلک ایڈکمیٹی کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ بحریا کے چیف ملک ریاض جو ایک ٹی وی ٹاک شو میں اعلانیہ کہتے تھے کہ پاکستان کے ہر فرد کی ایک قیمت ہے ۔ عوام نے اخبارات بحریہ کی طرف سے جاری لسٹ بھی دیکھی۔
کس طرح میڈیا والوں کو چیک بانٹے گئے۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کو لاہور میں بلٹ پروف اور ہیلی پیڈ کی سہولت والا محل بنا کر دیا۔ مگر ملک ریاض جماعت اسلامی کے کسی فرد کی قیمت نہ لگا سکا۔ بحریا کے مظلوں کے ضبط شدہ پیسے واپس کرنے پڑے۔ کراچی کے مسائل کا حل جماعت اسلامی کی ٹیم کے پاس ہے۔اس کے روئے رواں انجینئر نعم الرحمان ہیں۔ کراچی کے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی امیدواروں کو الیکشن میںکامیاب کروانا چاہیے۔ ملک پر قابض ٹولہ جو صرف اپنے مفادات کے لیے سیاست کرتے ہے۔
پچھلے پچھتر (75) سال عوام کا استحصال کر رہا۔ سیاست دان امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔اب اس کھیل کو بند ہونا چاہیے۔پاکستان میں غول کے غول اُٹھیں جماعت اسلامی کے ترازو والے جھنڈے تلے جمع ہو اپنے حقوق حاصل کریں۔ اللہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ ریاست کی حفاظت فرمائے آمین۔
تبصرہ لکھیے