عمران خان، پاکستان کی سیاست کا ایسا نام، جس کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ 2011ء کے بعد انہیں سیاست میں وہ عروج ملا جو کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ان سے متعلق بہت اہم تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ کبھی انہیں اقتدار نہیں مل سکے گا۔ لیکن 2018ء میں وہ سب غلط ثابت ہوئے اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ تبدیلی کے خواہش مندوں کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا دن کوئی نہ ہوگا۔ کئی ایسے دوستوں کو جانتا ہوں، جو عمران خان کی کامیابی پر اس طرح خوشی سے سرشار تھے گویا وہ خود وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ چکے ہوں۔ بہت سوں کا کوئی ذاتی مفاد نہ تھا۔ مخلص لوگ۔ مقصد ان کا صرف یہ کہ ملک ترقی کرے۔ سبز پاسپورٹ کو عزت ملے۔ وہ سر اُٹھاکر جی سکیں۔
لیکن تین سال بعد ان میں سے بہت سوں کے خواب بکھرچکے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو اَب سیاست پر بات کرنا چاہتے ہیں نہ ہی سیاست اب ان کی دلچسپی کا محور رہی ہے۔ عمران خان ان کے لیے ایک ایسی شخصیت بن چکا ہے۔ جس نے اُن کی اُمیدوں اور آرزوؤں کا خون کیا۔ جو اُن کی شخصیت کے اب بھی اسیر ہیں، ان میں سے بڑی تعداد اگلے چند ماہ میں مکمل توبہ تائب ہوجائے گی۔ کئی ان میں ایسے ہیں جو اقتدار کے پہلے سال ہی پہچان چکے تھے۔ ان کے قریب ترین ساتھی، نعیم الحق اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کی ”لیکڈ“ گفتگو سامنے رکھیں تو آگے جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں، اسے سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔ کس طرح مرحوم نعیم الحق کی بھی اُمیدیں دم توڑرہی تھیں اور کس طرح وہ بھی ایک پرُعزم عمران خان کو ایک کمزور اور گرتے ہوئے عمران خان کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔
شاید یہ فیصلہ کرنا فی الحال زیادہ آسان نہ ہو کہ عمران خان مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ مستقبل سے متعلق کوئی نہیں جان سکتا۔ لیکن گزرے ہوئے سوا تین سال تو یہی گواہی دے رہے ہیں کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے تحریک انصاف بنائی تھی۔ گزشتہ 25 سال سے وہ جو دعوے کررہے تھے۔ اور خصوصا 10سالوں میں قوم کو جو اُمیدیں دلائی تھیں، ان کو عمل کی شکل میں ڈھالتے ہوئے چند فیصد بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ملک میں جس طرح حکمرانی کررہے تھے، ان سے بھی بہت بدترین کارکردگی ان کی پہچان بن چکی ہے۔ اگلے ڈیڑھ سال میں آسمان سے تارے توڑ لانے کا کوئی ”معجزہ“ہوجائے تو الگ بات۔
وزیراعظم عمران خان جیسے پُرعزم اور باہمت انسان کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار اس پر اپنا تبصرہ کریں گے۔ لیکن میری نظر میں عمران خان کی ناکامیوں کی فہرست بنائی جائے اور پانچ بڑی وجوہات لکھی جائیں تو ان میں ایک بڑی وجہ ان کی مذہب اور دین سے متعلق خودساختہ تشریح اور تعبیر ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے مذہب کے نام پر جس طرح ”وہم“ کو اپنا عقیدہ بنالیا ہے۔ اور عمل کی جگہ جس طرح ”عملیات“ نے ان کی زندگی کو جکڑلیا ہے، اس نے ان کے اندازِ حکمرانی کو وہاں تک پہنچادیا ہے کہ ان کی حکومت کا دفاع ان کے کارکنان کے لیے بھی مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس ایشو پر کھل کر کوئی بات نہیں کرسکتا۔ مین اسٹریم پر تو اس طرف اشارہ کرنا بھی اپنی عزت کو سرعام نیلام کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے خاتونِ اول بشریٰ بی بی پر حملہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں، ان کی روشنی میں کم ازکم میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کی ناکامیوں میں بنیادی کردار ان کے کمزور عقیدے نے ادا کیا۔ جس انداز سے انہوں نے دنیوی معاملات کو ایک خاص عینک سے دیکھنا شروع کیا۔ اور جس طرح وہ اس گورکھ دھندے میں دھنستے چلے گئے۔ اور جس انداز سے انہوں نے بڑے بڑے فیصلے محض خاص ”عملیات“ کے تابع ہوکر کیے، اس نے ان کے اندازِ حکمرانی کو شدید نقصان پہنچایا۔ ”ع“ سے عارف علوی، ”ع“ سے عثمان بزدار، ”ع“ سے عبدالقیوم نیازی آپ کے سامنے ہیں۔ رہی سہی کسر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی نے پوری کردی۔
اپنی بات کو مزید کھولتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا اور آپ بھی اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ بہت سے خاندان اور بہت سے افراد آپ کو مل جائیں گے۔ جنات، عملیات اور اس سے ملتی جلتی خرافات پر جو یقین رکھتے ہیں اور جن کے نتیجے میں ان کی دنیا برباد ہوجاتی ہے۔ عمل جن کا ختم ہوجاتا ہے۔ اپنا ہر رشتہ دار جنہیں ”جادوگر“ اور ”عامل“ نظر آتا ہے۔ اپنی ہر ناکامی کے پیچھے جو اپنی بے عملی تلاش نہیں کرتا، بلکہ اسے کسی جادو، ٹونے اور تعویذ کے نتائج تصور کرتا ہے۔ گھر کے سامنے چاولوں کےچند دانے نظر آجائیں تو جن کے لیے وہ دن قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ اسی دھندے میں خواتین ہوں تو اپنی عزتوں سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ مرد ہوں تو مال اور دولت سے چلے جاتے ہیں۔ آنکھیں جب کھلتی ہیں تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا جو آغاز انہوں نے 2010ء سے پہلے کیا تھا، اب وہ بامِ عروج پر ہے۔ میاں بشیر صاحب نے جو ”شمع“ روشن کی تھی، اب وہ دہکتا الاؤ بن چکی ہے۔ اس میں نہ صرف وہ خود جل رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھ 22 کروڑ عوام کو بھی جلارہے ہیں۔ میاں بشیر سے متعلق آپ کو یاد دلادیتا ہوں، تاکہ بات سمجھنے میں آسانی رہے۔ جن لوگوں نے وزیراعظم عمران خان کی 12 سال پہلے چھپنے والی کتاب پڑھی ہے، انہیں یاد ہوگا کہ میاں بشیر ان کے لیے کیا تھے اور وزیراعظم کا عقیدہ ایسے معاملات میں کیا تھا۔
عمران خان لکھتے ہیں: ”میاں بشیر کی ”صلاحیت“ کو جمائما شک کی نظر سے دیکھتی تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ میاں بشیر سے ملی تو انہوں نے جمائما سے کہا کہ وہ تین ایسی چیزوں کے بارے میں لکھے جو اسے زندگی میں سب سےز یادہ مطلوب ہیں۔ وہ حیران وپریشان ہوگئیں جب میاں صاحب نے اس کے لکھے ہوئے کاغذ کو دیکھے بغیر بتایا کہ اس نے اپنی کن خواہشات کا ذکر کیا ہے۔ ویسے بھی میاں بشیر انگریزی نہ پڑھ سکتے تھے۔“
ممکن ہے کہ میاں بشیر نیک آدمی ہوں۔ ان کے اندر دیوار کے پار دیکھنے کی واقعی صلاحیت ہو۔ لیکن کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان آج کسی ایسی شخصیت پر یقین کربیٹھے ہوں جو انہیں عمل سے دور کررہی ہو۔ جو انہیں دکھایا جارہا ہو، وہ محض نظر کا دھوکا ہو۔ بدقسمتی یہ ہے کہ 2010ء کاعمران خان ایک عام شخص تھا یا پھر وہ ایک ایسا ہیرو تھا، جس کی زندگی چند افراد پر اثرانداز ہوتی تھی۔ آج معاملہ یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام ان کے رحم وکرم پر ہیں۔ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے وہ امین ہیں۔
سو ہماری دُعا ہے اور دلی خواہش بھی کہ خان صاحب عمل کی دنیا میں آئیں۔ خرافات سے تائب ہوجائیں۔ اگر خدانخواستہ وہ عمل کی دنیا میں نہ آئے اور بے عملی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ نہ ہو کہ وہ ملک وقوم کے ساتھ کچھ ایسا کرجائیں جس کا ازالہ کرنا مشکل ہو۔
تبصرہ لکھیے