پیارے وانی کا روشن چہرہ دیکھتا ہوں بے اختیار ہاتھ کی بورڈ کی طرف بڑھتے ہیں چند شکستہ سے لفظ گھسیٹ پاتا ہوں کہ ہمت جواب دے جاتی ہے ۔۔۔چھوڑ دیتا ہوں ،آگے بڑھ جاتا ہوں۔
کیا لکھوں ؟
آخر کیا لکھوں ؟
اپنے پیارے شہیدوں، ایسے کڑیل جوانوں کے تذکرے لکھوں جو پے در پے جان نچھاور کیے چلے جارہے ہیں اپنے گرم توانا خون سے وادی کو سیراب کررہے ہیں اور برسوں سے کسی صلے اور ستائش کے بغیر اپنے پیر گیلانی اور صلاح الدین کی قسم پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اب تو تیسری اور چوتھی نسل اپنی گردنیں لے کر حاضر ہو رہی ہے سوئے مقتل سفر کررہی ہیں۔
میں ان شیروں اور شیر دلوں کا ذکر کروں یا پھر بھارت کی ہٹ دھرمی پر قلم اٹھاوں، اس کے ظلم کا پردہ چاک کروں، اس کی سفاکیت کو برہنہ کرکے عالمی ضمیر (اگر اس نام کی کوئی شئے ہے تو) کو جھنجھوڑ نے کی کوشش کروں؟
میں کیا لکھوں ؟
ان پاکستانی مقتدر قوتوں کا نوحہ لکھوں جو پچھلی دہائیوں سے میرے پیارے برہانوں کو بھارتی نیزوں کی انیوں پر پروتا دیکھ رہے ہیں، مگر ان کی نظر میں کشمیر بس سلگتا رہنا ان کے مفاد میں ہے، اس لیے وہ ”سستی لیبر“سمجھ کر میرے مجاہدوں کو استعمال کررہے ہیں۔ یہ کشمیر کو بس پانی کا ذریعہ دیکھتے ہیں یا اپنے بھوجن کا مسلسل بندوبست اور بس۔۔۔
میں پاکستان کے بےحمیت حکمرانوں کو برا بھلا کہوں جن کے لیے میرا کشمیر بس ۵ فروری کی ایک کسک بن کر رہ گیا ہے۔
اور وہ بھی وہ ”مصیبت“ جو مجاہد قاضی ان کے گلے میں ڈال گیا تھا۔
کوئی بتائو میں کیا لکھوں؟ میں کن بے حسوں کا ذکر کروں؟ ان کا جن کے لیے جہادِ کشمیر اب آزاد کشمیر کے الیکشن جیتنے کے لیے ترپ کا پتا بھی نہیں رہا؟؟
میرے کشمیریوں یہاں کوئی تمہارا مخلص نہیں ،میری قوم تمہیں فراموش کرچکی ہے۔ ہمارا میڈیا ہمارا نہیں بلکہ یہ دشمن کا واچ ڈاگ بن چکا ہے۔
اور میں تم سے شرمندہ ہوں۔۔۔
اب تو فراق صبح میں بجھنے لگی حیات
بارِ الہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات
ہر تیرگی میں توں نے اتاری ہے روشنی
اب خود اتر کے آ کہ سیاہ تر ہے کائنات
تبصرہ لکھیے