ملائیشیا ایک بے حد خوبصورت اور پرامن ملک ہے ۔ یہاں کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں ہے جبکہ چائنیز اور تامل انڈین کی صورت غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں اسکے ساتھ ساتھ روزگار کے سلسلے میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے آنے والے بھی بستے ہیں ۔
اسی طرح براستہ تھائی لینڈ آنے والے اراکانی مہاجرین کی بھی پناہ گاہ ہے . ملائیشیا کی تہذیب کا اگر جائزہ لیا جائے تو نہ مکمل مغربی محسوس ہوتے ہیں نہ ہی مکمل اسلامی. لباس کے اعتبار سے جائے تو یہاں مسلمان لڑکیوں کا جینز اور شرٹ پہننا معمول کی بات ہے مگر لباس چاہے جیسا بھی ہو ایک چھوٹے سے اسکارف سے سر ڈھک کر نکلتی ہیں جبکہ ملائیشیا کا قومی لباس اسلامی اصولوں کے مطابق بے حد ساتر ہے مگر بتدریج اس کا استعمال ترک کیا جارہا ہے جو کہ خوش آئند امر نہیں ۔
خواتین کیلئے ملازمت ضروری سمجھی جاتی ہے ۔مردانہ نوعیت کے کام بھی عورتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ایسے ایسے کام جو کہ صنف نازک کے شایان شان نہیں مثلاً نوجوان لڑکیوں کا ہوٹلوں اور ڈھابوں میں کھانا بنانا ، سرو کرنا ،عوامی مقامات پر ہر طرح کے کام کرنا حتیٰ کہ مردوں کی مانند تعمیراتی کام کرنابھی شامل ہیں جس کا پاکستان میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ سراسر مغرب کی نقالی ہے کہ عورتوں کو برابری کا جھانسہ دیکر سخت مشقت پر مجبور کردیا جائے اس کے نتیجے میں بچے ماں کی آغوش سے محروم ڈے کیئر میں پل رہے ہوتے ہیں اور بڑے ہو کر بورڈنگ ان کامقدر ٹہرتی ہے اور والدین کولہو کے بیل کی مانند پیسے کمانے کی مشین بن کر رہ جاتے ہیں.نتیجتاً خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اولاد کیلئے ماں باپ اجنبی بن جاتے ہیں.
اس نظام میں سب سے زیادہ استحصال عورت کا ہوتا ہے کیونکہ دن بھر مشقت کے بعد گھریلو نظام کی دیکھ بھال بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ پاکستان کی طرح ملازمت پیشہ خواتین کو ملائیشیا میں خدمت گار میسر نہیں ہوتے۔ یہاں کوئی کسی بھی عہدے پر فائز ہو صفائی ستھرائی سے لیکر ہر طرح کا کام خود سرانجام دینا ہوتا ہے. ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عورت چاہے مکمل پردے میں ہو یا بے پردہ کسی بھی لباس میں ہو کوئی کسی کو مذاق یا طنز کا نشانہ نہیں بناتا۔ سڑک کنارے جوان جہان لڑکیاں بے فکری سے خرید و فروخت کر رہی ہوتی ہیں جسکا تصور پاکستانی معاشرے میں محال ہے .
ملائیشیا کی عمومی تہذیب شادی کے حوالے سے اسلامی اصولوں سے قریب تر ہے مثلاً جب لڑکے والے رشتہ لیکر جاتے ہیں اور لڑکی والوں کو رشتہ پسند آجائے تو اگلے مرحلے کے طور پر لڑکا اور لڑکی کو اپنے اپنے خاندان کی موجودگی میں ایک نظر دکھادیا جاتا ہے جو کہ اسلامی نکتہ نظر سے درست طریقہ ہے جبکہ پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے دو انتہاوں پر ہے ایک تو وہ طبقہ ہے جوشادی سے قبل فریقین کو دیکھنےدکھانے کا قائل نہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے نزدیک شادی سے قبل آزادانہ میل جول میں کوئی قباحت نہیں یہ دونوں رویے اسلام سے متصادم ہیں درست طریقہ یہی ہے کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لیا جائے.
یہ جان کر آپکو خوشگوار حیرت ہوگی کہ جہیز جیسی لعنت سے یہ معاشرہ آزاد ہے بلکہ لڑکا خود ضرویات زندگی کا تمام سامان مہیا کرتا ہے۔ نجانے پاکستانی معاشرہ کب جہیز جیسی لعنت سے پاک ہوگا جسکی وجہ سے ہزاروں بہنیں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں ۔شادی کی تقریب انتہائی سادگی کے ساتھ منعقدکی جاتی ہے میزبان تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں اور واپسی میں میزبان کیجانب سے مہمانوں کو نہایت خوبصورت پیکنگ میں کوئی نہ کوئی تحفہ خلوص سے پیش کیا جاتا ہے مثلاً خوشبو یا جوس کیک وغیرہ ۔جبکہ پاکستانی معاشرےمیں ہندوانہ رسم و رواج کے بدولت شادی ایک بوجھ بنتی جارہی ہے .
جب تک مایوں مہندی تصویر مووی اورطرح طرح کی رسومات نہ ہو شادی مکمل نہیں سمجھی جاتی ہمارا دین تو ہمیں آسانیاں دیتا ہے بس نکاح اور ولیمہ اتنی مختصر سی کہانی ہے مگر ہم نے خود شادی ایک عذاب بنادیا ہے ۔ ملائیشیا میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور نہیں اسلیے شادی کے بعد جوڑے والدین کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ علیحدہ زندگی گزارتے ہیں۔سب جاب کرتے ہیں اس لیے اپنے آپ میں مگن طرز زندگی ہے پڑوسی کس حال میں ہے یا بہن بھائی کیسے ہیں کچھ خاص فکر نہیں ہوتی ۔ آپس کے تعلقات میں انتہائی سردمہری پائی جاتی ہے ۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
الحمدللہ اس حوالے سے پاکستانی معاشرےمیں نسبتاً بہتر صورتحال ہے۔ پڑوسیوں کی خبرگیری محلہ داری اور اپنے خاندان سے تعلقات کسی حد تک مستحکم ہوتے ہیں۔ انسان جتنا مادہ پرست ہوتا ہے اتنا ہی بے حس ہوتا چلا جاتا ہے ملائیشیا کے لوگ ایک پرتعیش زندگی کے حصول کیلئے ان معاشرتی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے ملائی معاشرہ مغربی و اسلامی اقدار کا ملغوبہ ہے ۔



تبصرہ لکھیے