فلسطین کی آہوں کا تذکره ہو کشمیر کی سسکیوں پر کان دھرا جاۓ ، چیچنیا سے بلند هوتے نالوں کا بیاں ہو ، روہنگیا کے مسلمانوں کے درد کی تشهیر ہو ،برما کی اذیتوں کی نشست لگے ،یمن کے زخموں کا چرچا کیا جاۓ یا شام میں خون کی ہولی پر بات ہو.
حمیت گم اتحاد گماں اخوت ختم باهمی رشته تمام درد بے درد کلمه فقط نشاں اسلام محض عیاں مسلمان عکس عریاں. ایک قوم کا تصور ماضی کے جھروکوں میں کھو کر ره گیا. اب هر کسی کو اپنی اپنی چار دیواری کی فکر لاحق هے اب همارا دین دین ابراهیمی نهیں اب هم اسلام کے جاں نثار نهیں اب کلمۂ شهادت کی بنیاد پر مسلمانوں کے مابین میلوں کی مسافت تسخیر هونے والا وقت نهیں رها اب صلاح الدین کوسوں دور کلمه گو کا درد محسوس نهیں کرتا اب طارق بن زیاد اسلام کی سربلندی کا پھریرا بلند نهیں کرتا اب محمد بن قاسم عرب سے بر صغیر آ کر اسلام کی دھاک نہیں بٹھاتا.
اب ترکی کی مائیں فقط انکی مائیں هیں افغانوں کی بہنیں بس انکی بہنیں هیں فلسطین کی بیٹیاں محض فلسیطینوں کی بیٹیاں هیں شام کے بچوں کا خون صرف ان شامیوں کا خون ہے. یمنیوں کا مصریوں سے کوئی تعلق نهیں عربوں کا ترکیوں سے ترکیوں کا بنگالیوں سے بنگالیوں کا پاکستانیوں سے اور پاکستانیوں کا سوڈانیوں سے کوئی وجه و واسطه نهیں. اب مسلمان مانتے تو الله کو هیں لیکن پرستش وطنوں کی کرتے هیں نام امت کا لیتے هیں اور ترجیح نسلوں کو دیتے هیں انصار اور مهاجرین سے انس رکھتے هیں لیکن اپنے هی اسلامی بھائیوں کیلئے تنگ دلی کا مظاهره کرتے هیں. فلسطینیوں کے همدرد تو سبھی بنتے هیں.
لیکن درد کا مداوا کرنے والا کوئی نهیں برما سے اٹھتی چیخیں تو هر کوئی سنتا هے مگر مچل جانے ولا کوئی نهیں روهنگیا کے بے آسرا و بے دخل باشندوں کو مسلمان تو سب مانتے هیں لیکن بنگله دیش ایک مسلم ملک هوتے هوۓ انکے بیڑوں کو اپنی حدود سے نکال دیتا هے اور وه بیچ سمندر کھلے آسمان تلے بھوک سے بلک بلک کر مرنے کا انتظار کرتے رهتے هیں. شام سے اٹھتی سسکیوں پر کان تو سب دھرتے هیں لیکن دل کسی کا نهیں ڈوبتا وهاں لگی آگ سے جھلسی لاشیں سب دیکھتے لیکن کلیجے منه کو نهیں آتے کیونکه اگر کلیجے منه کو آتے تو آگ ضرور ٹھنڈی هوتی.
لاکھوں شامی اپنے هی ملک میں پناه گزینوں سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. شهید ہوجانے والوں کی گنتی محال هے یتیوں کا شمار ناممکن اور بیواؤں کی قطاریں ناختم ہیں. اور مہاجرین جن کا کوئی پرسان حال نہیں انکو نہ تو اپنے ملک میں امان ہے نہ اس سے باپر سوائے لم یزل ولا یزال کے کوئی مداوائے الم ہے۔ باقی دنیا میں مائیں اپنے بچون سے لاڈ کرتی ہیں انکے باپ انکے ناز نخرے اٹھاتے ہیں. جبکہ ستم ظریفیوں میں گھرے مسلمانوں کے بچے انہی والدین کی میتوں کو ٹٹول ٹتول کے اشکبار ہوتے ہیں۔ بالخصوص شام جہاں ظالم بھی نام نہاد مسلمان ہے اور مظلوم بھی مسلمان لیکن کیا مسلمان کسی مسلمان پر اتنا ظلم کر سکتا ہے؟
مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس سے کفار تک کو امان ہوتی. جب تک اسکا کوئی قصور نہ ہو تو محص ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر اتنا سیاپا اتنا ظلم اتنی درندگی جسکی مثال تاریخ میں نئیں ملتی بشار الاسد شیعہ ہے یا سنی میری بلا سے لیکن میں یہ جانتا ہوں، وہ مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتا اور جو اسکے دست راست ہیں. وہ اس سے بھی بڑے ظالم ہیں پھر خواہ وہ اپنی مسلمانی کے کتنے ہی بلند و بانگ دعوے کر لیں. ایسی شریعت کا کو آگ لگے جو اپنے ہی کلمہ گو ملسمانوں کی جان لینے کے در پے آ جائے. ایسا مسلک آگ میں جھونکا جائے جس سے انسانیت کا عنصر ہی ناپید ہوجائے، پھر وہ داعش ہو کہ حزب اللہ۔
شریعت تو وہ تھی جو میرے پاک پروردگار نے میرے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک سینے پر اتاری اور جسکا خاصیت یہ ہے کہ وہ محبت کا درس دیتی ہے نفرتوں کا خاتمہ کرتی ہے دل جس کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہم نے اسی کی حق تلفی کرتے ہوئے کافر کافر کی رٹ لگا رکھی ہے میں کسی کو کافر کہتا ہوں اور کوئی مجھے خوارجی کہتا ہے۔ اسلم میں جنگ کا اصول ہے کہ کفار کی عورتوں اور بچوں کو امان دی جاتی ہے اور اس امیتیازی سلوک کو ہم نے مسلمانوں تک سے چھین لیا ہے جو مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کیطرح مسل رہے ہیں. وہی خوارجی ہیں وہی اسلام کے اصل دشمن ہیں جو کفار کے تلوے چاٹ کر مسلمانوں کی جانیں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ فلسطین کی نسلین شام مین ختم کی جا رہی ہیں انکے گلاب سے بچے سمندر برد ہو رہے ہیں چڑیوں سی بیٹیاں کمینے باز بھون کر کھا رہے ہیں.
اور اپنے گھر سے بے گھر ہوئے 107 ممالک کے مہاجر کیمپوں میں دشنام سرائیاں سہنے پر مجبور ہیں۔حتی کہ اپنے ہی ملک میں مہاجر بستیان آباد ہیں اور ستم در ستم یہ کہ انہیں اپنی جان کی امان کیلئے اہنے ہی ملک کی سرحد پار کرنے کیلئے جان کی بازی لگانا پڑتی ہے کچھ وقت اردن کی طرف شامیوں نے ہجرت کی بعد میں وہاں انکے اہنے ہی ملک کی فوج ان پر بندوقیں تان کر کھڑی ہو گئی اور اردنی سرحد پر شہیدون کی لمبی قطاریں بچھ گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پچاس سے زائد مسلمان سو سے زائد ملکوں میں در بدر ہوئے شامیوں کے درد کا مداوا کرنا تو دور کیا تسلی کیلئے انہیں اپنے ملکوں میں پناہ بھی نئیں دے سکتے تھے؟
مسلمانوں کا تو اول دن سے یہ شیوہ رہا ہے کہ اپنے تو اپنے انکے دروازے پرائے لوگوں کیلئے بھی وا رہتے ہیں لیکن اتنی تنگ دلی اپنے ہی مسلمانوں کیلئے سمجھ سے بالا تر ہے. دعوے کرنا بہت آسان ہے لیکن اگر کسی نے مہاجرین کیلئے اپنے دروازے کھولے تو پاکستان جس نے افغانیوں کے انیس لاکھ مہاجرین کو پناہ دی اور ترکی جس نے شام کے بیس لاکھ مسلمانوں کو پناہ دی اسطرح چند ایک اور لیکن باقیوں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔
اور اس سے بھی بڑھ کر شام کے حالیہ بحران کے پیش نظر وہ مہاجرین بچے جنکے والدین شہید ہو گئے انکے تناظر میں جرمن حکومت نے مسلمانوں کو رغبت دلائی کہ ان بچوں کو اگر مسلمان فیملیز ایڈاپٹ کریں تو زیادہ بہتر رہے گا مگر افسوس کہ وہی بے حسی جو ہماری فطرت بن چکی ہے کسی نے اس پر کان نہ دھرا اور وہ بچے جرمن فیملیز کے رحم و کرم کے محتاج ہو کر رہ گئے بات صرف پالنے کی نہیں حمیت اصلیت اقدار تمدن اور مذہب کی ہے لیکن کیا انکی کسے پڑی ہے یہ ان بچوں کے ساتھ جو اج بیتی ہے کیا کل یہ بچے اپنے مذہب کے لوگوں کا ایسے سلوک کو دیکھ کر اس مذہب پر رہنا قبول کریں گے یہ وہ سوال ہے جو سب سے اذیتناک ہے۔
یہی وقت ہے جو تاریخ رقم کرے گا .اگر ہماری حمیت کا نیم مردہ وجود زندگی کی تمازت سے بیدار ہوگیا تو ہم جیسا کوئی نہیں. ورنہ وہ مائیں جو آج عمر کو آوازیں دے رہی ہیں، انکی آہیں آنے والے وقت کی سطریں بن جائیں گی جسکی لفظی صورت یہ ہوگی کہ تھے تو چھپن مگر سارے کے سارے چوہے تھے۔
تبصرہ لکھیے