اب جبکہ کہ خود حکومت نے کہہ دیا کہ بادی النظر میں وہ ڈان کو اعلی سطحی سکیورٹی میٹنگ کے حوالے سے وہ تفصیلات جاری کرنے کے ذمہ دار پائے گئے جس کی بنیاد پر سیرل المیڈا صاحب نے چھ اکتوبر کی اشاعت میں اپنا کالم لکھا، اس کے بعد کسی ہمدردی کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟
اس سطح کے اجلاسوں کی تفاصیل ”چیدہ چیدہ“ کی بنیاد پر ہی جاری کی جا سکتی ہیں، وہ بھی سرکاری بریفنگ میں. اس کا من و عن رپورٹ ہو جانا تشویش کا باعث ہے اور قابل سزا بھی. رازداری برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری نہ کرنے اور بطور وفاقی وزیر حلف کے پاسداری میں غفلت پر ان کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی ضروری تھی. یاد رہے نیشنل کمانڈ اتھارٹی بھی لگ بھگ انہی افراد پر مشتمل ہے جو اس میٹنگ میں شریک تھے. اگر رازداری کا یہ عالم ہے تو پھر ایٹمی اثاثوں سے متعلق ہماری یقین دہانیوں کا اللہ ہی حافظ ہے.
جو دوست تواتر سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس خبر میں نیا کیا تھا، سب کچھ وہی ہے جو پہلے ہی کہا جا رہا تھا؟ ان کی معصومیت کو سلام کے بعد عرض ہے کہ الزام اور ”اقبال جرم“ میں بہت کلیدی فرق ہوتا ہے. جو کہا جا رہا تھا وہ محض ایک الزام تھا. الزام کو ثابت کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے جبکہ اقبال جرم کے بعد حجت تمام ہو جاتی ہے، اب صرف سزا سنانا باقی رہ جاتا ہے.
کوئی وجہ بھی اتنی بڑی نہیں ہو سکتی جس کے لیے ایسی حرکت کو جواز فراہم کیا جا سکے. تاہم، آئندہ ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنے کے لیے جہاں ذمہ داران کی گرفت ضروری ہے وہاں اس پر غور کرنا بھی بہت اہم ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایسا کام ہوا. اگر یہ سب منصوبہ بندی سے ہوا تو یہ انتہائی فرسٹریشن کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے. کہیں یہ تنگ آمد بجنگ آمد کا معاملہ تو نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر ان وجوہات کو ختم کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے.
مثلاً، یہ تاثر کہ سیاسی افراتفری یا منفی میڈیا کیمپین کی ڈوریں کہیں سے ہلائی جاتی ہیں، اس کی عملاً نفی ہونا چاہیے.
یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ ون آن ون میٹنگ میں اگر وزیراعظم کو مبینہ طور ”شٹ اپ کال“ جاری کی گئی تو کیا وہ خبر ایک ٹیلی ویژن اینکر تک نواز شریف صاحب نے پہنچائی؟ یا مریم نواز شریف نے ایک دوسرے اینکر کو فون کر کے اطلاع دی کہ میں نے اخبار نویس کو وائبر پر 8 کالیں کی؟ یا پھر یہ بات سرتاج عزیز صاحب نے سوشل میڈیا تک پہنچائی کہ ایک خاتون لکھاری کو انہوں نے کابل بھیجا، بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے ؟
نیشنل سیکیورٹی اہم ترین معاملہ ہے اور اسے خالصتاً وہیں تک محدود رہنا چاہیے تاکہ اس کی ساکھ محفوظ رہے اور جب بھی اس کا حوالہ دیا جائے، یہ قوم کو متحد کر کے سیسہ پلائی دیوار بنا دے. اس کی آڑ میں دیگر اہداف کے حصول کی کوشش، یا ایسا ہونے کا تاثر، نیشنل سیکیورٹی کے اس اہم ترین وصف کو شدید زک پہنچا سکتا ہے.
کسی بھی قوم اور اس کی افواج کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ بات ممکن نہیں.
تبصرہ لکھیے