انسان روز اول سے ہی کائنات کے سربستہ رازوںسے پردہ اٹھانے کی جستجو میں رہاہے ۔ ان کوششوں میں بیسویں صدی کی دریافتوں نے تہلکہ خیز انکشافات کیئے۔آئن سٹائن کے زماں ومکاں کے نظریات،گریوی ٹیشنل فورس کی پیش گوئی ،اسٹیفن ہاکنگ کے بلیک ہول ودیگر نظریات، کائنا ت کی تخلیق اور اس کو سمجھنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں ۔سو سال قبل گریویٹیشنل ویوز کی پیش گوئی اور موجودہ سال میں اس کی اسکی تصدیق بھی ایک اہم سنگ میل ہے ۔
کشش ثقل (Gravity)کی دریافت نیوٹن کے عظیم کارناموں سے ہے لیکن زماں ومکاں(Space & Time)کے نظریے سے اس کی صحیح معنوں میں وضاحت ممکن ہوئی ۔مزید برآں گریوی ٹیشنل ویوز کی تصدیق سے اب ہم کائنات کو ایک نئی جہت سے سمجھنے کے قابل ہوں گے۔
زماں ومکاں کے نظریے کو آسانی سے سمجھنے کے لئیے ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ہماری "خلا" (space)ایک ربڑ کی چادر جیسی ہے ۔اس ربڑ کی چادر میں جب کوئی بھی کمیت (mass)رکھنے والی شے کو رکھا جائے تو اس میں خم آ جائے گا۔خم کی طول وعرض(Dimmensions)کا انحصار جسم کی کمیت پر ہوتا ہے ۔ غیر طعبیاتی اصطلاح میں جسم جتنا زیادہ بھاری ہو گا ،خم اتنا ہی زیادہ ہو گا ۔ اب سیدھی لائن میں حرکت کرتا ہوا جسم جب اس خم کے پاس سے گزرے گا تو وہ اس خم کے درمیان پڑے ہو بھاری جسم پر جا گرے گا یا ضروری توازن حاصل کر کے ا س کے گرد گردش کرنے لگے گا۔ہماری زمین بھی سورج کے گرد اسی نظریے کے مطابق گردش کرتی ہے۔
زماں ومکاں کی اس چادرمیں حرکت کرنے والے اجسام موجیں (Waves)پیدا کرتے ہیں ۔ موج کسی بھی واسطے میں ارتعاشی حرکت کو کہتے ہیں جو اس واسطے کے ذرات کے دائیں ،بائیں (to and fro) حرکت سے آگے منتقل ہوتی ہے ۔
جس طرح آپ تالاب میں پتھر پھینک کر موجیں پیدا کرتے ہیں بالکل اسی طرح زماں ومکاں کی چادر میں حرکت کرنے والے اجسام بھی اس میں ارتعاش(Vibrations)پیدا کرتے ہیں جو موج کی شکل میں آگے منتقل ہوتی ہے ۔
زماں ومکاں میں کسی زیادہ کمیت رکھنے والے جسم کے گرد گردش والے اجرام فلکی ،طول و عرض کی پابندی کی وجہ سے اپنے اپنے مدار (orbit)میں گردش کرتے ہیں اور کسی ممکنہ ٹکرائو (Collision)سے محفوظ ہیں ۔
اس ضمن میں قرآن ہمیں کیا دعوت دیتا ہے؟
عظیم کتاب میں دیگر احکام کے ساتھ کثرت سے کائنات پرغور وفکر کی دعوت دی گئی ہے اور اس کی نشانیوں پر عقل والوں کو سمجھنے کی۔۔۔۔۔
زماں ومکاں اور گریوی ٹیشنل ویوز کی تصدیق کی غرض سے ہم صرف سورۃ یسین کی آیت نمبر40 کا مطالعہ کر لیتے ہیں ۔
ـــالاالشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحونــــ
ترجمہ:۔نہ سورج سے ہو پکڑلے چاند کو اور نہ رات آگے بڑھے دن سے اور ہر کوئی ایک چکر میں تیرتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ کے پہلے حصے میں یہ وضاحت ہے کہ تمام اجرام فلکی کی حرکت اپنے اپنے مداروں (orbits)میں محدود ہے اور ان کے درمیان کسی ممکنہ ٹکرائو کی کوئی صورت حال نہیں ہے۔
زماں ومکاں کا نظریہ عین اس کی مثال ہے۔
ٓآیت مبارکہ کا دوسرا حصہ گریوی ٹیشنل ویوز کی وضاحت میں انتہائی اہم ہے۔
فرمایا گیا "تمام اجرام فلکی اپنے اپنے مدار وں میں تیرتے ہیں"
"یسبحون"کا مصدر سبح ہے ،السبح کے عربی زبان میں اصل معنی پانی یا ہوا میں تیرنے کے ہیں
اب خلا میں پانی یا ہوا تو موجود نہیں تو پھر اجرام فلکی کس میں تیرتے ہیں؟یہاں لفظ تیرنے کے بجائے گردش ہونا چاہیے کیوں کہ پہلے حصے میں مدار کا ذکر تو موجود ہے اور "یسبحون کی جگہ صرف حرکت سے ہی کام چل سکتا ہے مگر خاص یہاں تیرنے کا لفظ استعمال ہوا ۔اگر آپ زماں ومکاں کی چادر میں اس حرکت کا جائزہ لے تو یہ تشبیہ "تیرنا " بالکل واضح ہے یوں اس ذات ِبرکات نے زماں ومکاں کاتصور ہمیں چودہ سو سال پہلے دے دیا۔اب تیرنے کے ذکر کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ تیرنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو موجوں کو جنم دیتا ہے، جس کی وضاحت ہم پیچھے کر چکے ہیں ۔ ان مو جوں کی ٖ تصدیق ہم چودہ سو سال بعد جدید ترین مشینوں سے سر انجام دے رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے