تقسیمِ ہند سے پہلے کا ایک واقعہ منقول ہے کہ کسی محلے میں ایک ہندو (بنیا) کی دوکان تھی اس محلے میں مسلمانوں کی کثرت تھی تمام مسلمان اس سے سودا سلف خریدتے تھے، اسی محلے کی مسجد کے امام صاحب بھی اس سے اپنی ضروریاتِ زندگی خریدتے تھے جس کی وجہ سے مولوی صاحب اس کے مقروض ہو گے ایک دن اس بنیے نے مولوی صاحب سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا مولوی صاحب چونکہ ہمیشہ ہر چیز نذرانہ سمجھ کر کھاتے تھے اس لیے کبھی پیسے دینے کی نوبت نہ آتی تھی اس لیے مولوی صاحب کو یہ مطالبہ بہت نا گوار گزرا، مولوی صاحب نے جمعہ کے دن اعلان کیا کہ بنیا وہابی ہو گیا ہے اس لیے اس کا بائیکاٹ کیا جائے بے جاری عوام نے یہ تک نہ سوچا کہ وہ تو سرے سے مسلمان ہی نہیں تو وہابی کیسے بن گیا. بنیا بہت پریشان ہوا کہ نہ کوئی اس کے پاس سودا سلف لینے آتا ہے اور جو رستے میں ملتا ہے وہ بات تک نہیں کرتا آخر ماجرا کیا ہے.
اس نے ایک مسلمان سے پوچھا پتا چلا کہ مولوی صاحب نے جمعہ میں اعلان کیا تھا کہ بنیا وہابی ہو گیا ہے اس لیے اب تمہارے پاس کوئی نہیں آتا لہذا تم جا کر مولوی صاحب سے معافی مانگو اور رقم کا مطالبہ بھی نہ کرو، بنیا نے مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ جو کچھ مطلوب ہو آپ مجھ سے بغیر معاوضہ کے خرید سکتے ہیں، اگلے جمعے میں اعلان ہوا کہ بنیا پھر سنّی ہو گیا ہے لہذا آپ اس سے خرید و فروخت کر سکتے ہیں جاہل عوام نے پھر بھی نہ سوچا کہ ایک ہندو بنیا کیسے سنّی بن گیا
کچھ ایسا ہی حال ہمارے معاشرے کا ہے جن کا معیارِ انسانیت سنّی اور وہابی ہے اور ان مولوی صاحب کی باقیات اب تک چلی آ رہی ہیں اور اب حال یہ ہو چکا ہے کہ سلام لینا تو درکنار اس کا جواب بھی نہیں دیتے نہ مولوی صاحب اور نہ ہی وہ جاہل عوام جو مولوی صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے ہے عوام بھی بے چاری کیا کرے کیونکہ بعض کے نزدیک تو جواب دینے سے نکاح ہی ٹوٹ جاتا ہے
مشرکینِ مکہ صابی کہا کرتے تھے اب لوگ وہابی کہا کرتے ہیں نام بدلا ہے میشن نہیں
اللہ پاک ہمیں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تبصرہ لکھیے