ایک انگریزی مقولہ ہے کہ آپ اگر خوبصورت، ذہین اور دولتمند پیدا ہونا چاہتے ہیں تو والدین کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ پاکستان میں تو یہ مقولہ بہت ہی کارآمد ہے۔جیسی شخصیت بننا چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے ویسے خاندان میں جنم لے لیجیے۔
اب اپنے بلاول بھٹو زرداری کو ہی دیکھ لیں۔ موصوف قوم کے لیڈر بننا چاہتے ہیں، اور لیڈر بننے کےجملہ حقوق بھٹو اور شریف خاندان کے پاس ہی توہیں۔ ویسے بھی اتنا اہم معاملہ اس قوم کے کسی معمولی فرد یا خاندان کے حوالے تو نہیں کیا جا سکتا، لہٰذاحضرت نے انتہائی عقلمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی والدہ کے طور پر منتخب کیا۔البتہ والدکے معاملے میں ان سے غلطی ہو گئی یا غالباََدھاندلی ہوگئی، اور وہ کسی بھٹو کے بجائے زرداری کو اپنا باپ بنا بیٹھے۔ ضرورت کے وقت بنایا تو جا سکتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اب ایسی بھی کیا ضرورت لاحق ہو گئی تھی۔
پھر اپنی شخصیت میں نکھار کے لیے انھوں نے پاکستان سے کوسوں دور، ان مغربی ممالک میں قیام کرناپسند فرمایا جہاں وہ ہر قسم کے اسلامی، معاشرتی، ثقافتی، قومی اثرات سے محفوظ رہیں، اسلامی تعلیم کا شائبہ نہ ہو، معاشرتی اقدار کی آمیزش نہ ہو، قومی روایات کی جھلک نہ ہو، ایسی ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک تا کہ اصلی اور خالص لیڈر بن سکیں۔
مینوفیکچرنگ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اب انھوں نے نقاب کشائی بھی کر دی ہے اور پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں نمودار بھی ہو چکے ہیں۔
ہماری عظیم قوم، جہاں امیر چائنہ کی مصنوعات اور امیر جاپان کی مصنوعات پسند کرتا ہے، اگر ترقی یافتہ مغرب کا تیار کردہ قائد میسر آجائے تو کیسے ممکن ہے کہ نقالوں سے دھوکہ کھا لے۔ بلاول کی صورت میں برانڈڈ نیو لیڈر کے ملنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کو بالخصوص اور پاکستانی عوام کو بالعموم اپنی خوش بختی پر ناز کرنا چاہیے۔
ہمارے آقاؤں اور مہربانوں نے بہت کرم کیا ہے اور لیڈر ہمیں فراہم کر دیا ہے۔ اب تو اس قوم کا فرض ہے کہ وہ اس نوزائیدہ لیڈر کو جلد از جلد مسلط کر کے احسان شناسی کا بھی ثبوت دے اور بالغ نظری کا بھی مظاہرہ کرے۔
تبصرہ لکھیے