البرٹ پنٹو ایک فلمی کہانی کا حقیقی کردار ہے جسے کچھ دن پہلے محمد عامر خاکوانی کے قلم نے پردہ سیمیں سے پردہ قرطاس پر لا اتارا ہے.
یہ ایک استعارہ ہے آج کے نوجوان کا.
آخر آج کا نوجوان چاہتا کیا ہے اور اسے کس چیز نے اتنا نالاں کر رکھا ہے کہ اس کی تیوریاں ہی ختم نہیں ہوتیں؟ خواہشات کے سیل بیکراں میں ٹوٹی امید کی کشتی کے پرانے تختے سے لٹکے یہ نوجوان کسی معجزاتی جزیرے کی تلاش میں موبائل گیمز سے جی بہلا رہے ہیں.
وجہ؟ بھئی وجہ یہ ہے کہ فارغ وقت بہت ہے مگر کرنے کو کچھ نہیں، تعلیم کم یا زیادہ جتنی حاصل کرنا تھی، ہو چکی، اب مرضی کا کام مل نہیں رہا، سو ڈپریشن مٹانے کے لیے موبائل پیکج ہیں نا. اگر غور کریں تو یہ پیکج حسرتیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے اور تشنہ حسرتیں ہی تو ڈپریشن ہیں.
اس ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کی ہمارا نوجوان اب صفر سے آغاز کرنے کو تیار نہیں، اسے دنیا میں اپنا آپ منوانے کے لیے بھی ایک تگڑی راس چاہیے جس پر وہ اپنی کاروباری صلاحیت آزما سکے، اور اگر وہ راس اسے فراہم نہیں کی جاتی تو وہ کچھ نہیں کرے گا کیونکہ وہ چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے تو پیدا ہی نہیں ہوا.
پہی حال نوکری کا ہے جو فی زمانہ جاب کہلاتی ہے. جبتک یہ موئی جاب ”نوکری“ تھی تب تک ”نخرہ“ نہیں تھا. اب جاب بےحد نخرے والی صنف بن چکی ہے، اور ہر پرامید میٹرک یا ایف اے پاس اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کو ایگزیکٹو جاب چاہیے، ورنہ ابا جی، بڑے بھیا یا ایم اے پاس ٹیچر بہن جیب خرچ اٹھا رہی ہے. زندہ پائندہ شاد باد.
رشتے داروں خصوص شریکوں کا دکھاوا بھی جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور اپنے چچا تایا ماموں زاد سے کم تر جاب کرنے میں انا سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے. اگر کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر لے تو رشتے داری کے گراف میں پوزیشن نیچے گر جاتی ہے. کسی کے گھر جانے پر پیزا کیک کے بجائے دال ساگ پر ٹرخایا جاتا ہے. کولڈ ڈرنک کے بجائے لال شربت دیا جاتا ہے. یہ رویہ غصیلے نوجوان کو مزید چڑچڑا اور باغی کر دیتا ہے اور اپنے طور پر وہ رشتے داری کا صفحہ اپنی زندگی کی کتاب سے پھاڑ دیتا ہے.
اگر کوئی نیک دل عزیز زکوۃ سے امداد کرنا چاہے تو اسے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اب وہ/میں اتنا گیا گزرا بھی نہیں کہ اسے/مجھے زکوۃ دی جائے، ہاں ویسے مدد کر دو. ارے بھئی زکواۃ پر پہلے عزیز رشتے دار کا حق ہے اور یہ دینے والے کا احسان نہیں بلکہ اس کا فرض ہے، جو رب کریم نے اس کے ذمہ لگایا. اس لیے زکوۃ کے حق دار رشتے دار کو زکوت کی امدادی رقم اپنی جھوٹی غیرت پر تازیانہ محسوس نہیں ہونی چاہیے. بہر کیف کسی عزیز کی عزت نفس بحال رکھنے کے لیے اسے زکوت کی رقم بتائے بغیر بھی دی جا سکتی ہے.
وائٹ کالر جاب نہ ملنے پر یہی نوجوان اگر موٹر مکینک یا مزدور بن کر بہترین کمائی کرنے بھی لگے تب بھی اسٹیٹس کے خواہاں عزیز اس سے دور رہتے ہیں اور رشتہ مارکیٹ میں رشتوں کا بھی کال بھگتتا ہے.
جو جابز ہیں ان کی شرائط کڑی ہیں. باسز اور کمپنی کے مقرر کردہ اہداف غیر حقیقی ہیں، جنہیں پورا نہ کر سکنے والا ماتحت فورا سے پہلے فارغ کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ پرعزم اور کم تنخواہ پر کام کے خواہشمندوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں. جن کے ہاتھ میں چھوٹی سے چھوٹی نوکری کے لیے بڑی سے بڑی سفارش بھی موجود ہوتی ہے.
میرا ہر نوجوان (مرد و زن) کو ایک ہی مشورہ ہے. تعلیم اور ہنر دونوں حاصل کریں. بقول شیخ سعدی
تونگری بہ ہنر است نہ بہ مال
خوشحالی ہنر سے ملتی، مال سے نہیں
یہ چند حقائق ہیں کہ آج کا پنٹو منٹو ببلو پپو مٹھو غصے میں کیوں ہے.
تبصرہ لکھیے