اب میں دروازے کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا کہ دستک دوں، یا لوٹ جاؤں؟۔ اگر یہاں سب کچھ بدلا ہوا، تو پھر کیا ہوگا؟'۔ یہاں آنا میری برسوں کی خواہش تھی؛ جب بھی میرا گزر مُلتان کے ریل وے اسٹیشن سے ہوا، تو دل نے یہ چاہا، کہ وہیں اُتر کے اس گھر کی راہ لوں، جہاں میرے بچپن کے ابتدائی دو یا تین سال کا عرصہ سانس لیتا ہے۔ یہ سن دو ہزار پندرہ کی پہلی سہ ماہی ہے، جب میں ماضی کے در پہ دستک دینے آیا ہوں۔
’جی؟‘ ۔ کِواڑ کے پیچھے کھڑی دوشیزہ نے اجنبی نگاہوں سے جھانکتے ہوے پوچھا، تو میں نے سوال کیا؛ ’کیا گھر میں کوئی مرد ہے؟‘
’جی نہیں‘۔ دو لفظی جواب پا کر میں مایوس ہوگیا، کہ نا مُراد لوٹنا ہوگا؛ ڈوبتے لہجے میں کہا، ’بہت سال پہلے ہم۔ میرا بچپن یہاں گزرا ہے۔ ہم یہاں رہ کر گئے ہیں۔‘ میرے لہجے کی کم زوری نومیدی کی پتا دے رہی تھی۔ ’میں دُور سے، پنڈی سے، نہیں؛ کراچی سے آیا ہوں، اِس گھر کو دیکھنے۔۔. کیا میں؟‘. یقینا وہ میری بے بسی سے لطف اندوز ہوئی ہوگی، تبھی مسکرائی اور ایک منٹ رُکنے کا کہ کر پلٹ گئی۔ میں نے اطراف کا جائزہ لینا شروع کیا۔ بائیں ہاتھ پر کھڑکی تھی، اندر اندھیرا؛ مجھے شبہہ ہوا، کہ چلمن کے پیچھے آنکھیں ہیں، جن سے سائل کو پرکھا جا رہا ہے۔ کون ہے؟۔ کہاں سے بھٹکتا آیا ہے؟۔ اور کیوں آیا ہے؟۔ کہتے ہیں، کہ اوٹ میں رہ کر تماشا دیکھنے والا، دلوں کے احوال جان لیتا ہے۔
تھوڑی دیر پہلے مجھے یہ بنگلا ڈھونڈنے میں مشکل پیش آ رہی تھی. ریل وے اسپتال میں داخل ہو کر بنگلے کے عقبی حصے تک تو پہنچ گیا، لیکن مرکزی دروازے کی سَمت جاتا تو وہ کوئی اور بنگلا ہوتا. لاہور میں نسیم ماموں کو ٹیلے فون کال کی؛ اُن کا لڑکپن یہاں گزرا تھا، تو وہ اس گھر کو کیسے بھُولے ہوں گے!۔ میرا قیاس درست نکلا، ماموں نے گلی کا محل وقوع سمجھاتے عزیز ہوٹل کی طرف سے جانے کو کہا، اور ریل وے کالونی ملتان کے اس بنگلے کا نمبر بھی بتا دیا، 95۔ وہ لڑکی مجھے ایک منٹ ٹھیرنے کا کہ کر گئی تھی؛ یہ منٹ طویل ہو گیا۔ اس بار دہلیز کے پیچھے سے سن رسیدہ خاتون نمُودار ہوئیں. اُن کے سامنے اپنی داستان دُہرانی پڑی۔ میرے اندیشوں کے برعکس، کسی حیل و حجت کے بہ غیر، مجھے اندر آنے کی اجازت مل گئی۔
جامن کے چھ درخت، شیر کے مُنہ والے پرنالے، بر آمدہ، بر آمدے کے سامنے ہرا لان، گیراج سبھی کچہ ویسا تھا، جیسا میری یاد داشت میں محفوظ تھا، حتا کہ سوئچ بورڈ اور ایس بسٹاس کے سوئچ بٹن بھی سلامت تھے، جیسا کہ انگریز سرکار نصب کر گئی تھی؛ لیکن، ریل وے اسپتال کے احاطے میں کھلنے والا بنگلے کا بغلی دروازہ نہیں تھا. استفسار کرنے پر، مہربان خاتون نے بتایا کہ آٹھ نو سال پہلے اسپتال کے سی ایم او نے، اِس دروازے کو ہٹا کر اینٹیں چنوا دی تھیں۔ یہ بنگلا کبھی میرے نانا کے نام الاٹ ہوا تھا، جب وہ ریل وے میں آڈٹ آفیسر تھے۔ اب یہ اس شفیق خاتون مسز الزبتھ کے نام لگا، جو ریل وے اسپتال، ملتان کی میٹرن تھیں۔ اس وقت ان کے گھر کوئی مرد نہیں تھا، اس کے باوجود انھوں نے مجھے کمروں اور باورچی خانے کا دورہ کرایا.
مجھے باورچی خانہ اس لیے بھی دیکھنا تھا، کہ یاد کا ایک پل وہاں دھڑک رہا تھا۔ بچپن کا وہ لمحہ جب رسوئی میں رکھی پرات میں سے مُٹھی بھر بھیگے چاول چُرا لے بھاگا تھا؛ ان چاولوں کا ذائقہ کل کی طرح یاد ہے۔ امی کے چھوٹے چچا کی بیٹی نگہت مجھ سے دو تین سال بڑی ہے، میں نے کبھی اسے خالہ نہیں کہا، کیوں کہ وہ میری ہم جولی تھی۔ ہمارا گھر کے بڑوں سے چھپ کر مٹی کھانا۔ امی کے بڑے چچا کے بیٹے، زاہد ماموں مرحوم، ایک منظر میں وہ ہیں۔ تب وہ بالک تھے؛ لِپٹن چاے کے جامنی یا نیلے رنگ کے گتے سے بنے ڈبے کو فٹ بال بناے میرے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ کچن کے دروازے کے سامنے کا منظر ہے۔ پھر وہ حادثہ، سب سے چھوٹے ماموں عتیق کا جامن کے پیڑ سے گر کر بازو اور پسلی کی ہڈیاں تڑوانا۔ وہ اس شجر سے گرے تھے، جو گیراج کے ساتھ اسپتال میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ تھا۔ کوئی آج بھی جامن کے پیڑ پر چڑھے، تو میں ڈرتا ہوں، کہ ان کی شاخیں بے وفا ہوتی ہیں؛ وفاداروں کی طرح بوجھ اٹھانا نہیں جانتیں۔
رات کے مناظر میں سے ایک؛ میری خالہ فرحت کی بارات کا آنا ہے۔ فرحت آنٹی اب اس دُنیا میں نہیں رہیں؛ موت کی بارات انھیں ساتھ لے جا چکی ہے۔ دوسرا منظر؛ گھر کی مستورات کے ساتھ بغلی دروازے سے ریل وے اسپتال میں داخل ہونا، اور وہاں سے ریل ویز گراؤنڈ جاکر پروجیکٹر سے نکلتی روشنی کو کپڑے کے پردے پہ ناچتی بولتی تصویروں میں بدل جاتے دیکھنا ہے۔ پانی بھرے غبارے کو گیند بنا کر ہتھیلی سے تھپکنا؛ (اب آ کے پتا چلا کہ اسے ’یو یو‘ کہتے ہیں) یو یو سے کھیلنے کا یہ Shot فلم دیکھنے جانے کے منظر کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ یہ تو بتایا جا چکا کہ یہ بغلی دروازہ اینٹیں لگا کر بند کر دیا گیا، لیکن میں اب بھی اس سے گزر جاتا ہوں۔ یہ مناظر دیکھ کر لوٹ آتا ہوں۔ پھر چند Shots سرونٹ کوارٹروں کی سلاخ دار کھڑکیوں کے ہیں۔ دن کے اجالے میں گھر کے آنگن میں لگی پِینگ سے جھولے لینے کا منظر یاد کے پردے پہ تازہ ہے۔ اسی طرح کے کئی چھوٹے چھوٹے مناظر ہیں، جن کے امتزاج سے ایک دل کش مونتاژ بنتا ہے۔
مِسز الزِبتھ نے انتہائی خلُوص، اور فراخ دِلی سے تواضع کی۔ اُن کی چار نوجوان بیٹیاں اور ایک جوان بیٹا ہے. چاروں بچیاں اس وقت گھر پہ تھیں. ان حالات میں جب قدم قدم پر دھوکے اور دہشت گردی کے واقعات عام ہوں، ان بے لوث خواتین کے حوصلے اور مروت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوتی؛ ان کا شکریہ ادا کیا تو گویا ہوئیں، ’ہم کرِسچن ہیں۔ شاید کوئی مُسلم فیملی آپ کو یُوں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتی۔‘ میں نے ان کے قول کی تائید کی، واقعی یہ کون سا زمانہ ہے، کسی پہ بھروسے کا۔ وہ بھی اجنبی پہ؟۔ جب یہاں ایمان ہی سلامت نہیں رہے، تو انسان کب پورے ہوتے ہیں!
عموما یہ ہوتا ہے، کہ آپ اُس پرستان میں لوٹتے ہیں، جہاں سے یاد کی پریاں چُرا لے نکلے تھے، تو وہاں کی بدلی حالت دیکھ کر سب پریاں آپ سے روٹھ جاتی ہیں. تب آپ اپنی تہی دامنی دیکھ کر کفِ افسوس ملنے لگتے ہیں، اے کاش میں یہاں نہ آیا ہوتا۔ ریل وے کالونی مُلتان کے اِس کوہ قاف کی یادیں، مرتے دم تک میرے ساتھ رہیں گی۔ وہ میری عُمر کے ابتدائی تین سال کی یادیں ہوں، یا پھر اِس مُختصر دورے کے دوران مِسز الزِبتھ، اور اُن کی خوش اخلاق بیٹیوں کی پُرتپاک مہمان نوازی کی یاد پریاں۔
تبصرہ لکھیے