اگرچہ ہندوستان دنیا میں اسلحہ کی درآمدات کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے، اسلحے کی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان نے اسرائیلی میزائل، روسی جنگی جہاز، امریکن ٹرانسپورٹ ائیرکرافٹ اور فرانسیسی سب میرین تک کا سودا کر لیا ہے۔ پھر بھی اس میں پاکستان یا کسی اور ملک سے جنگ کا خطرہ مول لینے کا جگر نہیں۔ کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار برطانوی جریدے دی اکانومسٹ میں شایع شدہ ایک مضمون میں کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کیوں جنگ چھیڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان فوجی لحاظ سے برتری کے باوجود کچھ ایسے تیکنیکی مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کی فوج ایک مخصوص ڈر اور خوف کا شکار ہے۔ انڈیا کی زمینی، ہوائی اور سمندری فوج میں سب سے بڑی دراڑ ان کی مواصلاتی کمی ہے، جس کی بنا پر یہ فوج صرف کاغذی بنیادوں پر ہی بڑی گردانی جاتی ہے۔ اس وقت چین کے بعد انڈین آرمی دوسری بڑی فوج ہے جو محاذ پر کھڑی ہے، جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
آئی ایچ ایس کے جنوری 2014ء کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو آشکار کیا گیا ہے کہ اگرچہ بھارتی ائیرفورس دنیا کی چوتھی بڑی ہوائی فوج ہے جو تقریبا 2000 ائیر کرافٹ پر مشتمل ہے تاہم اس پوری فوج کا دارومدار صرف 60٪ جیٹ طیاروں پر ہے کیونکہ باقی ماندہ 40٪ طیارے اڑنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ اس سال کے شروع میں مرتب شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے سب سے زیادہ مشہور اور ان کی سمندری فوج کی ہوائی حصے کی آن سمجھنےجانےوالی مگ 29، جن کی تعداد 45 بتائی جاتی ہے، ان میں بھی صرف 16٪ سے 38٪ ہی کام کرنے کی اہلیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ان جہازوں کو جس سمندری کیرئر سے اڑان بھرنی تھی، وہ ابھی تک اپنے تعمیری مراحل سےگزر رہے ہیں، جبکہ ان کی تعمیری سلسلہ 2010ء تک اختتام پذیر ہونا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ ایک سرکاری آڈٹ رپورٹ میں یہ تک بتایا گیا ہے کہ یہ کرافٹ کیرئر کچھ 1150 تغیرات کے بعد 2023ء سے پہلے سمندر میں کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔
مزید برآں انڈین ملٹری سکینڈلز کے ضد میں بھی آتی رہی ہے، جس میں رشوت ستانی سر فہرست ہے۔ مشاہدین اس بات پر ابھی تک انگشت بہ دنداں ہیں کہ آخر کیسے غیر ملکی دہشت گرد مسلسل سرکاری اور فوجی اڈوں تک رسائی حاصل کرکے سرکار کو اپنے سامنےگھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کردیتی ہے، اس ضمن میں حالیہ اوڑی حملہ بہترین مثال ہے۔
ہندوستانی فوج بالعموم رشوت ستانی میں اس قدر مشکوک ہوئے جا رہی ہے کہ کئی جرنیلوں کی پروموشن کی عدالتی مقدمے ابھی تک زور و شور سے جاری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیادہ آمدن، اور اپنے افسروں کے بھاری وزن رکھنے جیسے معاملات بھی زیر بحث ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ایک خبر میں فرانس سےخریدے ہوئے سب میرین کا معاملہ منظر عام پر سامنے آیا چاہتا ہے۔
ان تمام اور دیگر امور پر اگر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالی جائے تو یہ بات صاف سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ انڈیا اپنی جنگی جنونیت کی بیماری اور فوجی برتری کے باوجود، کسی بھی طرح کے جنگ کا طبل بجانے سے پہلے کئی دفعہ تاریخ میں کیے گئے اپنی خامیوں پہ نظر ضرور دوڑائے گا، جہاں ہمیشہ پاکستان کی طرف سے نہ صرف سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ کئی دفعہ اسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ امید ہے دونوں ممالک کی عوام اور قائدین اس ممکنہ جنگ یا محض جنگی جنونیت کے لاحاصل مقاصد کا ادراک کرتے ہوئے کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔
تبصرہ لکھیے