ہوم << بلا عنوان - مبین امجد

بلا عنوان - مبین امجد

مبین امجد جب بیک وقت کئی مناظر آنکھوں میں ہوں اور اطراف میں کھیل تماشے اور میلے ہوں تو سفر رک جاتا ہے۔ پھر کوئی منزل تک پہنچ نہیں پاتا۔ پھر زندگی اجنبی ہو کر کوری کتاب بن جایا کرتی ہے جس کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔ اسی لیے بلاعنوان کا عنوان دیا ہے۔
اپنے احساسات کو کوئی نام نہ دے سکنا ایک بہت بڑا المیہ ہے، اور اس طرح کے کئی المیے میری ذات سے جڑے ہیں۔ ابھی آنکھوں کی عدت پوری نہیں ہوتی کہ ایک اور خواب مٹی اوڑھ لیتا ہے۔ کبھی دل و دماغ کی زمین بنجر ہوجاتی ہے، پھر عرصہ دراز تک اس ریگستان میں خوابوں اور خیالوں کی فصل نہیں اگتی۔ اور مجھے تو لگتا ہے میں زندہ ہوں، اپنی پیاس کی وجہ سے۔ مر ہی تو جاؤں گا جس دن سیراب ہوگیا۔
مجھے انسانوں سے محبت ہے مگر مجھے آج تک محبت کرنے والا انسان نہیں ملا۔ ملا مگر تھوڑے عرصے کےلیے۔ میرا بھی ایک عدد دل ہے جو چاہتا ہے کہ کوئی میرے پیاس سے نڈھال مردہ ہونٹوں پر شفاف میٹھے چشموں کے ہار ڈالے۔ نہ جانے کیوں یہ ایسی خواہشیں کرتا ہے، شاید پاگل ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چاہے جانے سے بڑا غرور کوئی نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے اندر کا انا پرست، ضدی بچہ چاہتا ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو مجھے مجھ سے بھی زیادہ چاہے۔ کوئی تو مجھ سے لپٹ کرایسا روئے کہ مجھے بھی رلا دے۔ کوئی تو ایک ایسا کندھا ہو جس پر اپنا سر رکھ کر رو دوں اور پھر تتلی کی طرح ہلکا پھلکا ہو جاؤں۔ کیا کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو مجھے ریشمی لہجے میں پکارے۔ جو میری خامشی کو توڑے اور میرے لبوں پر پڑے آہنی اور زنگ آلود کواڑوں کو ہمیشہ کے لیے کھول دے۔ کوئی تو ہو جس کی مہکتی یاد میرے دل کے کاسنی زینے پر دبے پاؤں اتر کر بیٹھ جائے۔ کاش اے کاش!
دیا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ سیاہ شب صبح کا آنچل اوڑھنے کو ہے مگر آج بھی نیند کی خوش رنگ پریوں نے میری پلکوں پر اپنے نرم و نازک اور دودھیا ہاتھوں سے دستک نہیں دی۔ نہ جانے کتنے رتجگے میری قسمت میں اور باقی ہیں؟ کون جانے؟
جب بادصبا نے میرے پراگندہ بالوں کو آ کر چھیڑا تو میں اس میں سوچ میں تھا کہ میں کون ہوں ؟ میں خود سے اجنبی کیوں ہو گیا؟ میں جو شروع سے ہی نفرت کے اظہار میں منہ پھٹ اور محبت کے اظہار میں گونگا تھا، مگر یہ مجھے کیا ہوگیا؟
آہ! مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں اپنی ماں کو یقین دلا بیٹھا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ فیصلوں کا اختیار اب مجھ کو مل گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے مجھے صداؤں میں رکھنا چھوڑ دیا۔ میری ماں نے مجھے دعاؤں میں رکھنا چھوڑ دیا۔ اگر چہ آج اس بات کو تین چار دن ہوگئے ہیں اور میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میں ”اس“ کے بغیر تو رہ سکتا ہوں مگر ماں کی ناراضی مجھ سے اور برداشت نہ ہو گی۔
سو آج سے ”اس“ سے ہر طرح کا تعلق ختم کرنے کا وعدہ تو کر لیا ہے مگر کاش، اے کاش مجھے دل پہ بھی اختیار ہو۔ باقی جہاں تک اس کا تعلق ہے، وہ ایک اچھی لڑکی ہے، اللہ اسے زندگی بھر خوش رکھے اور اس کے نصیب اچھے کرے۔ آمین
مجھے معاف کر دینا پلیز۔

Comments

Click here to post a comment