چند دن پہلے اپنے دفتر کے کولیگز کے ساتھ بنی ہوئی 10 سال پرانی تصاویر نظر سے گزریں تو عجیب احساس ہوا کہ ان دس برسوں میں زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔کئی کولیگز مختلف کمپنیوں میں اور کئی بیرون ملک جاب پر چلے گئے۔ ان سے رابطے بھی تقریباً ختم ہی ہو گئے۔
انہی دس سالوں میں والد محترم کی وفات ہوئی, بچے چھوٹے تھے اب ماشاءاللہ بڑے ہو گئے ہیں۔ مشترکہ آبائی گھر میں رہائش تھی اب دوسرے شہر اپنے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں الحمدللہ، اللہ تعالٰی نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔
اس عرصے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو اپنی زندگی کے دس برس کم ہو گئے۔ کتنی باقی ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ یہی دعا ہے کہ اللہ تعالٰی انجام بخیر فرمائے۔
اگر انسان کی زندگی کے بارے سوچا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابتدائی 7-8 سال بچپن میں گزر جاتے ہیں پھر تقریباً 20 سال کی عمر تک سکول اور کالج لائف۔ اسکے بعد نوکری یا کاروباری مصروفیات اور شادی۔ پھر بچے اور دیگر پریشانیاں۔ پھر ادھیڑ عمر اور بڑھاپا۔
اپنی کل زندگی کا تقریباً نصف تو انسان سو کر گزار دیتا ہے باقی میں سے بچپن لڑکپن اور بڑھاپا نکال دیں تو شاید ہی 10 سال بچتے ہیں جن میں انسان دنیا اور آخرت کے لیے کچھ محنت کرتا ہے۔
قیامت کے دن لوگ آپس میں سوال کریں گے کہ دنیا میں کتنا عرصہ رہے ہیں تو کوئی کہے گا ایک گھڑی کوئی دو گھڑیاں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ان میں سے جو بہت درست اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو یہ ہے اس دنیا کی حقیقت جہاں رہ کر ہم اپنی بہت ہی مختصر زندگی کو فضول مصروفیات میں برباد کر لیتے ہیں۔ کیا پچھلے ایک سو سال پہلے تک جو لوگ اس روئے زمین پر موجود تھے ان میں سے کوئی آج موجود ہے؟
اسی طرح جو آج اس زمین پر موجود ہیں اگلے سو سال تک ان میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا چاہے ہم اس حقیقت کا ادراک کریں یا نا کریں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اپنے والد کے دادا کا نام معلوم ہو۔نسلوں کی نسلیں گزر گئیں لیکن کتنے لوگ ہیں جن کا نام ہم تک پہنچ سکا ہے اسی طرح ہماری زندگی کے بعد کسی کو ہمارا اس دنیا میں آنا یاد بھی نہیں رہے گا کہ اس نام کا کوئی فرد ہوا کرتا تھا ۔
انسان اپنی جوانی کے نشے میں اپنا انجام بھول جاتا ہے اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ جس طرح صدیوں سے نسل انسانی کی زندگی اور موت کا سلسلہ جاری ہے میں بھی عنقریب اس کا شکار ہونے والا ہوں۔ موت کا ذکر کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ذکر نہ کرنے سے وہ ٹلنے والی نہیں ہے۔
ایک ایک گزرتے لمحے اور سانس کے ساتھ ہم اپنی محدود زندگی کا محدود سٹاک استعمال کرتے جا رہے ہیں اور پھر اچانک وہ دن آن پہنچتا ہے کہ جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے "اور پھر وہ موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آ پہنچی یہ وہ چیز ہے جس سے تو دور بھاگتا تھا"۔
پھر نہ کوئی جائے پناہ میسر ہو گی اور نہ ہی دنیا میں واپسی کا کوئی راستہ۔ ابھی ہمارے پاس وقت اور عمر کی مہلت ہے کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہمارا نصب العین دنیا کا مال و متاع ہے یا کہ آخرت کی کامیابی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کا کام چھوڑ دیں لیکن یہ ہمارا اصل مقصد حیات نہ بنے۔ دنیا کے کام دھندوں میں بھی ہم اللہ کو یاد رکھیں۔ رزق حلال کمائیں اپنی اولاد کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالٰی ہمارا انجام صالحین کے ساتھ فرمائے۔
تبصرہ لکھیے