ہوم << عذاب و راحت کے منکرین کے اعتراضات کا جواب - فیاض الدین

عذاب و راحت کے منکرین کے اعتراضات کا جواب - فیاض الدین

%d9%81%db%8c%d8%a7%d8%b6-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86 کچھ لوگوں (مسلمانوں سے ہی نکلا ہوا ایک گروہ) کا کہنا ہے کہ قیامت سے پہلے اور موت کے بعد جو دورانیہ ہے، اس میں عذاب ہوتا ہے نہ راحت ہوتی ہے۔ عذاب و راحت قیامت کے دن ہوگا۔ قیامت سے پہلے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ عام لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات پیدا کرتے ہیں اور ایسے اعتراضات کرتے ہیں جن سے عام آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ان کے اعتراضات کی وجہ سے الحاد کی طرف جانے کا راستہ کھل جاتا ہے۔
اعتراض: موت کے بعد عذاب و راحت کو تسلیم کرنے سے تیسری زندگی ثابت ہوتی ہے اور یہ قرآن کے خلاف ہے، قرآن میں اللہ نے دو موت اور دو زندگیوں کا ذکر کیا ہے۔
جواب: یقینا اللہ پاک نے قرآن میں دو موت اور دو زندگیوں کا ذکر فرمایا ہے، تیسری موت اور زندگی نہیں، سوائے خرق عادت واقعات کے، موت کے بعد راحت و عذاب حالتِ موت ہی میں ہوتا ہے اور اس پر اللہ قادر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 75 دیکھیے، مرنے کے بعد آلِ فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ تو جس طرح حالت موت میں اللہ آل فرعون کو عذاب دینے پر قادر ہے، اسی طرح وہ اللہ تمام کافروں، مشرکوں کو حالت موت میں عذاب دینے پر قادر ہے۔
اعتراض: قرآن میں اللہ نے قیامت کا ذکر کیا ہے کہ اس دن حساب ہوگا، نامہ اعمال ملیں گے، جنت یا جہنم میں داخلہ ہوگا تو اس سے پہلے کیسا عذاب؟
جواب: قران میں اللہ نے قیامت کے عذاب کے ذکر کے ساتھ دنیا کے عذاب اور بعدالموت القیامتہ کے عذاب کا ذکر فرمایا ہے جبکہ آپ نے قیامت کے عذاب کے ساتھ دنیا کے عذاب کو تسلیم کر لیا ہے۔ اگر قیامت کے عذاب کے علاوہ دنیا کا عذاب تسلیم کر لیا جائے جبکہ ابھی حساب کتاب نہیں ہوا، نامہ اعمال نہیں ملے تو پھر بعدالموت کے عذاب کا انکار کیوں؟ جبکہ یہ عذاب بھی قرآن سے ثابت ہے۔
اعتراض: جب انسان مر جائے اس میں حِس باقی نہیں رہتی تو یہ عذاب کو کیسے محسوس کرے گا؟
جواب: جب آپ نے شہداء کی راحت اور آل فرعون کے عذاب کو تسلیم کرلیا ہے جبکہ ان پر موت آگئی ہے کیونکہ موت سے مستثنی صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ شہداء کے ان جسموں میں اور آلِ فرعون کے ان دنیاوی جسموں میں بھی حِس باقی نہیں رہی تو پھر شہداء راحت کو محسوس کرتے ہیں، اسی طرح دیگر سب لوگ حالت موت میں راحت و عذاب محسوس کرتے ہیں، یہاں اللہ پاک کی قدرت کا انکار کیوں؟
اعتراض: قیامت کے دن کفار کہیں گے ”ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا“ سورہ یاسین۔ اگر حالتِ موت میں عذاب ہوتا تو کافر اس طرح کیوں کہتے ہیں؟
جواب : [pullquote]قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا[/pullquote] ”یہ بولیں گے ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا“، یہاں ”مرقد“ کا لفظ ”مرقود“سے ہے جس کے معنی نیند کے ہیں۔ سورہ کہف میں اصحاف کہف کے بارے ہے”وھم ورقود“، اس آیت میں خوب وضاحت ہے کہ کفار بھی اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہمیں نیند سے کس نے جگایا ہے۔ حالت نیند میں اللہ انسانی نفس قبض کرلیتا ہے، اس کے باوجود وہ حالت نیند میں اچھے برے خواب دیکھتا رہتا ہے۔،تو پھر حالت موت میں عذاب و راحت کے پیش ہونے کا انکار کیوں؟ رہی یہ بات کہ وہ افسوس کریں گے تو یہ قیامت کے دن شدت عذاب کی وجہ سے ہوگا، ان افسوس کرنے والے کفار میں آلِ فرعون بھی ہوں گے جبکہ آلِ فرعون کے عذاب کو تو آپ نے تسلیم کرلیا ہے۔
اعتراض: ایک شخص نوح علیہ السلام کے زمانہ میں کفر کی حالت میں مر گیا اور عذاب میں گرفتار ہوگیا جبکہ دوسرا شخص قرب قیامت مرا، وہ تھوڑی سی دیر میں عذاب میں رہا تو کیا یہ نا انصافی نہ ہوگی؟
جواب: یہ ناانصافی نہیں بلکہ یہ اللہ پاک کا قانون عدل ہے۔ ہر انسان کو وہ دنیا میں چند سال کی مہلت دیتا ہے، اگر وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوجائے تو اس کے لیے ہمیشہ راحت ہے، اور اگر وہ اس آزمائش میں ناکام ہو جائے تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔ اب کسی کی آزمائش اس نے نوحؑ کے دور میں کی تو وہ کسی کی آزمائش قرب قیامت کرےگا۔ کیا یہ نہ انصافی نہیں کہ ایک شخص نوحؑ کے دور میں ایمان لایا اور قیامت تک وہ جنت سے محروم رہا جبکہ دوسرا قرب قیامت ایمان لایا اور پھر فوراََ اسے جنت مل گئی، کیا یہ نا انصافی نہیں کہ شہداء کو تو ان کے اعمال کے اجر کا صلہ مل رہا ہے لیکن باقی تمام مؤمنین قیامت تک اپنے اعمال کے اجر سے محروم ہیں۔ کیا یہ ناانصافی نہیں کہ آل فرعون کو تو صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ تمام کفر مشرک عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ ایک منٹ کو ہزارو ں سال محسوس کرائے اور ہزاروں سالوں کو ایک منٹ محسوس کرائے۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
اعتراض: سورہ البقرہ میں ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے سوسال تک حالت موت میں رکھا، جب اسے زندہ کیا اور پوچھا کتنا عرصہ تم حالت موت میں تھے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، اگر حالت موت میں کچھ ہوتا تو وہ سو سال کو ایک دن یا دن کاکچھ حصہ نہ کہتے۔
جواب: سورہ کہف میں اللہ پاک نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ تین سو نو سال اللہ نے انہیں سلائے رکھا۔ تین سو نوسال سوتے رہے، جب انہیں اٹھایا گیا اور پوچھا گیا کتنے عرصہ تم یہاں رہے توکہنے لگے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ جبکہ اصحاب کہف حالت موت میں نہیں حالت نیند میں تھے تو معلوم ہوا کہ نہ صرف حالت موت میں بلکہ حالت نیند میں بھی گزرے ہوئے وقت کا علم نہیں ہوتا۔ جبکہ حالت نیند میں انسان زندہ ہوتا ہے اور اچھے اور برے خواب بھی دیکھتا ہے۔ سورہ البقرہ اور سورہ الکہف کے ان واقعات میں علم غیب کی نفی ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو مرتے وقت ہی اس کی آخرت شروع ہوجاتی ہے اور جو نیک اور مومن ہوتا ہے اسے راحت و انعام کی خوش خبری دے دی جاتی ہے۔ اور جو کافر، مشرک اور گناہگار ہوتا ہے اسے بوقتِ موت ہی عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ مرنے کے فوراََ بعد اور قیامت سے پہلے یہ راحت و عذاب کیسا ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ یہ غیب کا معاملہ ہے؟ ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔

Comments

Click here to post a comment