بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا لیکن کشمیر کی موجودہ صورحال کے بعد اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار 1948ء میں اس وقت پانی کا تنازع کھڑا ہوا جب ہندوستان نے دریائے ستلج اور راوی کا پانی روکنا شروع کر دیا۔ یہ دونوں دریا بھارت کے علاقے سے پاکستان داخل ہو رہے تھے اور ان دونوں دریاؤں کے ہیڈ ورکس بھارت میں تھے، دریائے راوی پر مادھوپور جبکہ ستلج پر فیروزپور ہیڈ ورکس قائم تھا۔ چنانچہ بھارت کے اس طرح پانی روکنے سے پاکستان کے نہری علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ پاکستان نے غلام محمد کی قیادت میں ایک وفد بھارت بھیجا لیکن بھارت کے ساتھ بات چیت میں وہ کوئی سہولت پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ بجائے اس کے کہ وہ پاکستان کو اس کے آبی حقوق دلواتے، وہ پاکستان کے ان حقوق کو بھی بھارت کے حوالے کر آئے جو اسے دریا کے زیریں علاقے کی مملکت کے طور پر حاصل تھے۔ انہوں نے بات چیت کے بعد جس بیان پر دستخط کیے اس کی رو سے تین مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا اور پاکستان کو ان نہروں کے ذریعے فراہم کیے جانے والے پانی کی قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ ستم تو یہ کہ اتنے ظلم پر بھی بھارت کی تشفی نہیں ہوئی بلکہ قدم قدم پر اس نے پاکستانی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے مسائل کھڑے کرنے شروع کر دیے۔ اب تک بھارت کی جانب سے پانی کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ سلوک یہ رہا کہ نہروں کے پانی کو ضرورت کے دنوں میں روک لیا جاتا اور سیلاب کے دنوں میں کھول دیا جاتا جس سے علاقے میں سیلابوں کی صورتحال اور زیادہ سنگینی اختیار کر جاتی۔ یوں ہلاکتوں اور نقصان کے خطرے میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔
پانی کا یہ مسئلہ خود سے حل کرنے کے سلسلے میں جب یہ دونوں ممالک ناکام ہوئے اور معاملات زیادہ بڑھنا شروع ہوئے تو دونوں ممالک نے عالمی بینک کو اپنا ثالث تسلیم کیا اور یوں 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش کی گئی۔ اس موقع پر جو معاہدہ ہوا وہ سندھ طاس معاہدہ کہلایا۔ جس پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان اور بھارت کی جانب سے اس کے وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نے دستخط کیے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کو مکمل حق دیا گیا جبکہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ معاہدے میں ہندوستان کو مغربی دریاؤں کے پانی سے محدود پیمانے پر بجلی بنانے کی اجازت بھی حاصل ہوئی جبکہ بھارت کے ہائیڈروپلانٹس بنانے کی صورت میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اگر بھارت ہائیڈرو پاور پلانٹس بنائےگا تو اس کا نقشہ کیا ہوگا؟ اسی معاہدے کے آرٹیکل نمبر 9 کے تحت دوبارہ کبھی تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں گفت و شنید کی گنجائش رکھی گئی۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پانی کے معاملات پر دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے تحفظات ایک بار پھر زوروں پر ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے سندھ طاس معاہدے کے ایجنڈے پر ایک طویل دورانیے کی میٹنگ کی۔ جس میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر، سیکرٹری آبی ذخائر سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران شریک تھے۔ مبینہ طور پراس میٹنگ میں بھارت نے معاہدے کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اگر بھارت اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا ہے اور آبی جارحیت جاری رکھتا ہے تو مستقبل میں اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے، تازہ اطلاع یہ ہے کہ چین نے دریائے برہم پترا پر تبت کے مقام پر ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر شروع کردی ہے جس سے بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں کو پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چین نے سب سے بڑا آبی منصوبہ شروع کردیا ہے جسے لال ہو پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 4.5 پانچ بلین یوآن لاگت آئے گی اور یہ 2019ء میں مکمل ہوگا۔ اس منصوبے کی تعمیر سے دریائے برہم پترا کے پانی میں 36 فیصد کمی واقع ہوگی جبکہ بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چینی حکام کے مطابق بھارت کے ساتھ پانی کے معاملے پر کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہے اس لیے ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ خطے میں پانی کے مسئلے پر جنگیں ہو سکتی ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی.
تبصرہ لکھیے