پانی کا یہ مسئلہ خود سے حل کرنے کے سلسلے میں جب یہ دونوں ممالک ناکام ہوئے اور معاملات زیادہ بڑھنا شروع ہوئے تو دونوں ممالک نے عالمی بینک کو اپنا ثالث تسلیم کیا اور یوں 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش کی گئی۔ اس موقع پر جو معاہدہ ہوا وہ سندھ طاس معاہدہ کہلایا۔ جس پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان اور بھارت کی جانب سے اس کے وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نے دستخط کیے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کو مکمل حق دیا گیا جبکہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ معاہدے میں ہندوستان کو مغربی دریاؤں کے پانی سے محدود پیمانے پر بجلی بنانے کی اجازت بھی حاصل ہوئی جبکہ بھارت کے ہائیڈروپلانٹس بنانے کی صورت میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اگر بھارت ہائیڈرو پاور پلانٹس بنائےگا تو اس کا نقشہ کیا ہوگا؟ اسی معاہدے کے آرٹیکل نمبر 9 کے تحت دوبارہ کبھی تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں گفت و شنید کی گنجائش رکھی گئی۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پانی کے معاملات پر دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے تحفظات ایک بار پھر زوروں پر ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے سندھ طاس معاہدے کے ایجنڈے پر ایک طویل دورانیے کی میٹنگ کی۔ جس میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر، سیکرٹری آبی ذخائر سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران شریک تھے۔ مبینہ طور پراس میٹنگ میں بھارت نے معاہدے کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اگر بھارت اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا ہے اور آبی جارحیت جاری رکھتا ہے تو مستقبل میں اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے، تازہ اطلاع یہ ہے کہ چین نے دریائے برہم پترا پر تبت کے مقام پر ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر شروع کردی ہے جس سے بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں کو پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چین نے سب سے بڑا آبی منصوبہ شروع کردیا ہے جسے لال ہو پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 4.5 پانچ بلین یوآن لاگت آئے گی اور یہ 2019ء میں مکمل ہوگا۔ اس منصوبے کی تعمیر سے دریائے برہم پترا کے پانی میں 36 فیصد کمی واقع ہوگی جبکہ بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ چینی حکام کے مطابق بھارت کے ساتھ پانی کے معاملے پر کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہے اس لیے ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ خطے میں پانی کے مسئلے پر جنگیں ہو سکتی ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی.
پانی کی جنگ - مسعود احمد علوی

تبصرہ لکھیے