کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتہ چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں کام کرتے پائے جاتے ہیں، اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو پشتو زبان پر عبور تھا جبکہ دری اور فارسی انہوں نے اس دوران سیکھ لی ہوئی تھی۔ لیکن ان سے ملاقات کی صورت اس لیے بنی کہ انہیں کسی نئی نوکری کی تلاش تھی، کیوں کہ ان کے آجر اخبار نے امریکیوں کی افغانستان سے باعزت مراجعت کے بعد اپنے سارے دفاتر بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ مسئلہ ان کو ہی نہیں بلکہ وہاں کے بہت سے دیگر عامل صحافیوں کو بھی درپیش تھا اور افغان شہریت کے صحافیوں کی حالت ان سے بھی پتلی تھی، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق غیر پختون نسل یعنی ہزارہ، ازبک، جوزجانی قبائل سے تھا اور کابل میں امریکیوں کا سایہ ان کے سروں سے اٹھ جانے کا مطلب تھا کہ اب افغانستان میں ان کی جان و مال کی سلامتی کی کوئی ضمانت کوئی نہیں دے سکے گا۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ اس امریکی اخبار کو کہیں کہ آپ کو پاکستان (اسلام آباد ) میں اپنا نمائندہ رکھ لے توہمارے دوست نے یہ کہہ کر ہمیں حیران کر دیا کہ بین الاقوامی خبروں کے ادارے عرصہ ہوا اسلام آباد سے اپنا بوریا بستر گول کر کے نئی دہلی جا چکے، اس لیے اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں، مزید برآں وہ جو کابل سے بھاگ رہے ہیں ناں، وہ بھی نئی دہلی ہی جا رہے ہیں۔
اس بات پر ہمارا ماتھا ٹھنکا یعنی اب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر جو کچھ بھی نشر ہوگا وہ نئی دہلی میں بیٹھ کر ایک مخصوص ذہنیت کے زیراثر لکھا جائے گا؟ بہت سے امریکی اخبار پہلے ہی اخراجات کم کرنے کے جواز پر اپنے ’’نیوزروم‘‘ اور ’’آن لائن پروموشن‘‘ کا کام بھارتی اداروں کو منتقل کر چکے ہیں جس کا انکشاف اُس وقت ہوا جب امریکی اخبار کے لیے ’لکھنے‘ کے لیے ہمیں نئی دہلی کے نمبر سے ایک خاتون کا فون آیا جو پہلے دو جملوں کے بعد ہندی بولنا شروع ہو گئی۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ بی بی سی، سی این این کی جو نشریات ہم پاکستانی، افغانی، بنگالی، نیپالی حضرات اس خطے میں دیکھ رہے ہیں، وہ بھی بھارت سے ہی ہو کر آتی ہیں۔ نیشنل جیوگرافکس، کارٹون نیٹ ورک، موسیقی کے دیگر انٹرٹینمنٹ چینل اس کے علاوہ ہیں جو ضرورت پڑنے پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی مہم میں شریک ہو جاتے ہیں اور بعض تو سیدھے سیدھے نئی دہلی کا پروپیگنڈہ نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نیشنل جیوگرافکس نے جس طرح بلا روک ٹوک پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ثابت کرنے کے لیے دستاویزی فلمیں نشر کی ہیں، اس پر پیمرا کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ بھارتی میڈیا کو عطا کیا گیا بیانیہ ’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ‘ہے اور اس حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ اور ان کے پاکستانی حواری ایک صفحے پر ہیں۔
ایسے میں پاکستان کی طرف سے کوئی جوابی بیانیہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ جارحیت بہترین دفاع کے مصداق ہم نے اس بیانیے کی صرف نفی کرنے پر ہی سارا زور لگایا ہوا ہے جو اس محاذ پر بیٹھے ہمارے لوگوں کی شکست خوردہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی خبر بھارتی میڈیا پر ’’پھوڑے‘‘ جانے سے تین دن پہلے ہی بھارتی فوج کی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر پڑی ہوئی تھی۔ جب رپورٹروں نے پاکستانی فوج کے محکمہ اطلاعاتِ عامہ کی توجہ اس طرف مبذو ل کروائی تو انہیں ’نصیحت‘ کی گئی کہ پہلے بھارتی مین سٹریم میڈیا کو دیکھ لیا جائے کہ وہ اس خبر پر کیا کہتا ہے۔ کمال کی حکمتِ عملی ہے کہ بغیر تیاری کیے پہلے بھارتی عمل کا انتظار کیا جائے اور پھر رد عمل طے کیا جائے۔ ہو سکتا ہے یہ جنگی محاذ پر بہترین حکمتِ عملی ہو لیکن ’سب سے پہلے‘ کے جنون میں گرفتار ذرائع ابلاغ پر شاید یہ حکمتِ عملی ہی شکست تسلیم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کوئی بھی ابلاغی حکمتِ عملی نہیں ہے، نہ دفاعی اور نہ ہی جارحانہ۔ ہم رد عمل اور انکار کی کیفیت میں گھری عجیب قوم ہیں۔ جب تین دن بعد بھارتی حکومت اور اس کے ذرائع ابلاغ نے مکمل تیاری کر کے ابلاغی حملہ کردیا (کیوں کہ اگر ایک لمحے کے لیے بھارتی دعویٰ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ ایک زمینی حملہ تھا تو وہ بھی کئی دن پہلے ہو چکا ہوگا) اور ہماری طرف سے بیانیہ وہی تھا یعنی مکمل انکار۔ اب ہم انکار کو ثابت کرنے میں کس قدر مؤثر ہوسکتے ہیں جبکہ دشمن اس کی تین روزہ تیاری کے بعد روبہ عمل آیا تھا۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا ہر ابلاغی مرکز بھارتی بیانیے سے گونج رہا تھا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پس منظر میں جا چکے تھے۔
ہمارے ملک میں میڈیا مالکان کا مقصد کوئی قومی خدمت تو ہے نہیں، وہ تو حکومتوں کو بنانے بگاڑنے اور ریاستی قوانین سے اپنے دیگر کاروباری اور تجارتی مفادات کو بچانے کے علاوہ ملکی خزانے سے زیادہ سے زیادہ مال اینٹھنے پر یقین رکھتے ہیں، اور دن رات اسی کے لیے روبہ عمل رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں کسی کے ذہن میں یہ بات بالکل نہ آ سکی کہ جب یہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے اس خطے سے متعلق خبروں کے لیے ان مقامی ایجنٹوں پر انحصار کریں گے تو پھر ان میں بھارتی نکتہ نظر (بھلے وہ جتنا بھی غلط ہو) کوایک حقیقت کے طور پر پیش ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
یادش بخیر یہ بحث تو ماضی قریب تک بھارت میں چلتی رہی کہ جب تک سٹار اور زی نے بھارتی ایجنسیوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک دیے تب تک انہیں نیوز چینل چلانے کے اجازت نامے نہیں ملے۔ اس کے علاوہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں نے عامل صحافیوں کے مختلف گروہوں کو سرمایہ فراہم کیا اور یوں اب پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ بھونکنے والوں میں وہ چینل پیش پیش ہیں جو بظاہر عامل صحافیوں کے گروہوں کی ملکیت ہیں لیکن اصلاً انہیں ’’سی بی آئی‘‘ اور ’’را‘‘سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ اس لیے جیسے ہی اپنے فنانسرز کی طرف سے کوئی اشارہ ہوتا ہے تو یہ چینل دم ہلانے، بھونکنے اور کاٹنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور اب تو اس مصنوعی پیدائش کے بعد یہ ٹی وی چینلز مالی لحاظ سے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ہیں لیکن ان کی پاکستان کے متعلق پالیسی بہرحال اپنے انہی آقاؤں کی ہی مرہونِ منت ہے۔
اس کے برعکس ہمارے دنیا کے نمبر ون حساس ادارے نے تو پہلے سے چلنے والے پاکستانی چینلز کو بند کروانے کے لیے کمر کسی ہوئی ہے۔ کمال ہے صاحب! کیا مستقبل بینی ہے اور کیا حب الوطنی ہے۔ ایک ایس ایم ایس پر ڈھیر ہوجانے والے اور اپنی پالیسی، خبری ترجیحات، اور صحافتی معیار سب پر سمجھوتہ کر لینے والے ٹی وی چینل کا جرم محض اس لیے ناقابلِ معافی ہے کہ اس نے ماضی میں ادارے کے ایک شعبے کے سربراہ کے خلاف خبر چلا رکھی ہے۔ قربان جائیے اس عقل کے، کم از کم اس ذہنی ساخت سے بھارت کے میڈیائی مکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اُدھر سول حکومت کی حالت یہ ہے کہ پی ٹی وی کے ایک سابق سربراہ کمیشن کی دوڑ میں جاتے جاتے پی ٹی وی انگلش بھی لانچ کر گئے تھے۔ پی ٹی وی انگلش سے بری تصویر کشی شاید ہی پاکستان کی ہو سکتی ہو۔ ان پڑھ اور سفارشی اینکرز، بدصورت گرافکس، اور فرعون کے دور کا انگریزی پڑھنے کا سٹائل، ان عقل کے اندھوں اور کنویں کے مینڈکوں کو یہ نہیں پتہ کہ روس کا قومی ٹی وی ’’آر ٹی‘‘ (رپٹلائی ٹی وی) اپنی نیوز میں ’’فور ڈی‘‘ ٹیکنالوجی لے آیا ہے اور انگریزی کے پروگرام کرنے کے لیے لیری کنگ جیسے اینکر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اپنی کیبل پر جاپانی، چینی، جرمن اور عربی چینل لگا کر دیکھ لیجیے۔ چلیں ان کے پاس فنڈز کی کمی ہوگی لیکن بھارتی ٹی وی چینلز کا بجٹ تو ہمارے پی ٹی وی سے کئی گنا کم ہے۔ آپ کے اور میرے بجلی کے بلوں میں سے کاٹ کر ساڑھے چھ ارب روپے سالانہ ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں صرف الجزیرہ نے کچھ کرنے کی جسارت کی جس کو ایران کے زیراثر ہمارے پاکستانی بھائی دن رات گالم گلوچ کرتے رہتے ہیں۔ اور تو اور ایرانی حکومت کے انگریزی ٹی وی (پریس ٹی وی) نے بھی اس واقعے کی کوریج اس طرح کی کہ ہمیں آنکھیں مل مل کر دیکھنا پڑا کہ یہ پریس ٹی وی ہے یا ’’زی انگلش‘‘؟
یہاں پی ٹی وی انگلش پر وہی شائستہ زیدی والا نیوز سیٹ ہے جس کو نیا رنگ کروا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ ایک دن ایک بچی کو دیکھا جو قومی اسمبلی کے اجلاس پر خبروں میں تازہ ترین حالات بتا رہی تھی۔ بےچاری ایک ایک فقرے میں چار چار غلطیاں کر رہی تھی اور وہ بھی فحش۔ اب ان اداروں میں میرٹ پر بندے میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں تو بھرتی نہیں ہو سکتے، تو ایسے میں کہاں کا جوابی بیانیہ اور کہاں کی ابلاغی جنگ؟ اسی طرح کی میڈیا وار تو ایسے ہی چلے گی ناں؟
باقی جہاں تک ہمارے نجی اردو ٹی وی چینلز کی بات ہے تو ان کی عقل کا کیا ماتم کہ اڑی قضیے کے بعد کم از کم تین بلیٹن تک بھارتی فوجیوں کو ’’جاں بحق‘‘ اور پاکستانیوں فوجیوں کو ’’ہلاک‘‘ کہتے رہے اور تو اور پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے ایک بلیٹن میں یہی کام دکھایا۔ پاکستان کو اس وقت اگر اقتصادی راہداری کی تکمیل کرنا ہے تو اُسے مقامی بیانیے کے ساتھ علاقائی بیانیہ بھی گھڑنا ہوگا جو ان مشکل اوقات میں کام آ سکے۔ ورنہ پھر یہی ہوگا کہ ایک سو گھنٹے کی میڈیا چھترول کے بعد جا کر عالمی ذرائع ابلاغ ہماری بات سننے کو تیار ہوں گے جس کے لیے ہمیں انہیں لے کر خطِ متارکہ جنگ پر لے جانا پڑے گا اور ہر دفعہ ہم شاید ایسا کر بھی نہ سکیں۔
تبصرہ لکھیے