گزشتہ دنوں دلیل پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب کا ایک کالم ”کشمیر اور بلوچستان، ایک تقابلی جائزہ“ کے عنوان سے نظر سے گزرا۔ مذکورہ کالم میں جس طرح فاروقی صاحب کے زوردار اور قدرے کانٹے دار قلم سے توقع کی جاتی ہے، بہت ہی جاندار تعابیر، استعارات اور تضادات سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن جاندار مضامین کی خوبصورتی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے بعض حصوں سے اختلاف نہ کیا جائے۔ فاروقی صاحب کے نقطہ نظر سے کشمیر اور بلوچستان کے تقابلی جائزہ کو پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ صوبہ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں کا واحد مسئلہ ’بھتہ خور سردار‘ ہیں۔ نیز آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو بلوچ عوام میں کوئی پذیرائی نہیں ملی ہے۔
چونکہ بلوچستان میں صرف ’بھتہ خور‘ سرداروں کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، ان کی مبینہ جارحیت، اغوانما گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل کے جرائم سے بھی دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی ہے بلکہ یکسر اس کا انکار ہوا ہے؛ موصوف سوال اٹھاتے ہیں کہ ”آپ مجھے بتائیں کہ پاک فوج نے کتنے بلوچ نہتے شہری مارے ہیں؟ اور آپ مجھے بتائیں کہ بلوچستان کے کس شہر یا قصبے میں عام شہریوں نے نکل کر پاکستان سے آزادی کی بات کی ہے؟“ فاروقی صاحب سے استدعا ہے کہ کسی کی محبت میں اتنے آگے نہ جائیں کہ مظلوم کو چھوڑکر ظالم کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ اگر بلوچ اداروں کے اعداد و شمار میں کوئی شک ہو تو پنجاب میں بیٹھی انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ”پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق“ سے پوچھ لیں۔ ان پر بھی بھروسہ نہیں تو”مسٹر گوگل“ ہی کی چھان بین کی زحمت کریں، ان شاءاللہ تشفی بخش معلومات دستاویزات کے ساتھ ملیں گی۔
جہاں تک ’تین حرام خور نوابوں کو بھتہ نہ دینے‘ کا مسئلہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے تمام اضلاع میں قدرتی ذخائر نکالنے پر کام ہو رہا ہے اور وہاں کے سردار بھتہ لیتے رہے ہیں؟ کیا چاغی کے سیندک اور ریکوڈک کے پروجیکٹس کی راہ میں کوئی مقامی بااثر شخصیت کھڑی ہو کر رکاوٹ بنی؟ رکاوٹ تو کجا کہ ان کے اکثر مزدور مقامی لوگ ہیں اور غیرملکی انجینئرز خوشی سے اپنا کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ البتہ جن قبائل کی زمینوں میں یہ پروجیکٹس موجود ہیں وہاں کے عمائدین کو کچھ نہ کچھ ٹیکس مل رہا ہے جو یقینا ‘کروڑوں‘ روپے سے کم ہوگا۔
ایسے سرداروں اور وڈیروں سے کوئی شکوہ نہیں، ان کے بعض رویوں کو صحیح سمجھنا بھی غلطی ہے۔ شکوہ تو ارباب اختیار سے ہے جو دانستہ طورپر ایک بڑی برادری کی پسماندگی کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں. کیا معدودے چند سرداروں کی ’بھتہ خوری‘ کی وجہ سے ایک بڑے صوبے کو پسماندگی کی دلدل میں رکھنا چاہیے؟ ظاہر سی بات ہے محترم فاروقی صاحب بھی اس پر رضامند نہیں ہوں گے اور اپنے بلوچ بھائیوں کو خوشحال دیکھ کر انھیں دکھ نہیں ہوگا۔
اگر بلوچستان میں علیحدگی پسندی ایک دھوکہ ہے، پھر اس صوبے کے طول و عرض میں اتنے بڑے پیمانے پر سکیورٹی اہلکار کیوں تعینات ہیں؟ پنجگور، آواران اور ان جیسے شہروں میں جہاں سرداری سسٹم کا سکہ نہیں چلتا، پاکستانی جھنڈا کیوں ناپید ہے؟ چودہ اگست کو کیوں صرف فوجی بیرکوں میں یوم آزادی کا جشن منایا جاتا ہے؟ سکولوں میں ”آزاد بلوچستان“ کا جھنڈا لگانے والے آسمان سے آنے والے فرشتہ تو نہیں؟ فاروقی صاحب آپ مانیں یا نہ مانیں، ریاست سے نفرت بلوچستان کے متعدد اضلاع میں نوشتہ دیوار ہے۔ اس کا انکار صرف بے خبر شخص کرسکتاہے یا پھر تعصب سے بھرا کوئی ’اعتدال پسند لکھاری‘۔
رعایت اللہ فاروقی صاحب اگر چاہیں تو کسی وقت بلوچستان کے بلوچ علاقوں کا دورہ کریں، پھر انہیں معلوم ہوگا کہ ’آزادی‘ کا نعرہ لگانے والوں کی اکثریت سرداروں کے بھی باغی ہے۔ محترم فاروقی صاحب اگر نواب اکبرخان بگٹی کے قتل پر اتنے خوش ہیں، سابق فوجی صدر (پرویز مشرف) کی جان چھڑانے کے لیے کیوں محنت نہیں کرتے، کیا پاکستانی عدلیہ نے بگٹی قتل کیس میں مشرف کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے؟
جہاں تک صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں بلوچ ارکان کی موجودگی کا تعلق ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ضروری طور پر یہ حضرات و خواتین بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے اسلام آباد و لاہور میں بیٹھے حکام کی پالیسیوں سے پورری طرح متفق نہیں ہیں۔ بلکہ الٹا شدید شکوے کا اظہار بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ بلوچ عوام کی کتنی فیصد آبادی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے کچھ لیڈروں کو مراعات حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ووٹ ڈالنے والے بھی اپنی خستہ حالی و کسمپرسی کے ذمہ دار وفاق کو سمجھتے ہیں۔
ابھی سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ براہمداغ بگٹی پاکستانی آئین کو ماننے کے لیے تیار تھے لیکن کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی مصالحت اور قیام امن کے ایسے بہت سارے مواقع گنوائے جا رہے ہیں۔
کاش بلوچستان سے باہر بیٹھے حضرات و خواتین کو معلوم ہو کہ یہ زرخیز علاقہ کسی کا دشمن نہیں؛ یہ صرف اپنا جائز حق مانگتا ہے۔ ان سے بندوق کی نوک پر بات نہ کی جائے۔ کاش میرے ہم زبان بھائی بھی سمجھ لیتے کہ پراکسی وارز میں اس اقلیم کو مزید تباہیوں سے دوچار کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
حرفِ آخر
عام لکھاری جب قلم اٹھاتے ہیں تو اتنی ’بہادری‘ سے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایک عالم دین لکھاری جو مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید جیسی انصاف پسند اور معتدل مزاج شخصیت کی شاگردی پر نازاں و فاخر ہے، ان سے بجا توقع کی جاسکتی ہے کہ اتنا آگے نہ چلیں کہ مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کریں اور بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے آنکھیں بند رکھیں۔ پاکستان کی سالمیت کا احترام کرتے ہیں، اپنے جائز حقوق کا مطالبہ اس سالمیت کی نفی نہیں ہے.
تبصرہ لکھیے