وہ مقبوضہ کشمیر میں سوپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین نے ایک مرتبہ اس کی موت کا ماتم تو اس وقت کیا جب وہ نو دس سال کی عمر میں ٹی وی پر دور درشن کا کوئی ڈرامہ دیکھ کر بچپنے میں اسی عمل کو دہراتے ہوئے گلے میں چادر ڈال کر خود کو پھانسی دے بیٹھا۔ اس کو بے ہوشی کی حالت میں جب نیچے اتارا گیا تو اس کے والدین اسے مردہ سمجھ کر رو پیٹ رہے تھے کہ اسی اثنا میں اسے ہوش آگیا۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی پہلی موت تھی جس کے بعد گھر کا ماحول کئی دن تک سوگوار رہا۔ والدین کی نظر میں وہ دوسری مرتبہ اس وقت شہید ہوا جب وہ آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ انہی دنوں مقبوضہ وادی میں آزادی کی مسلح جدوجہد اپنے جوبن پر تھی۔نوجوان دھڑا دھڑا مسلح تحریک میں شمولیت کے لیے سرحد پار کر رہے تھے۔ جب پوری وادی کے نوجوانوں میں تحریک کا بخار سر چڑھ کر بول رہا تھا تو وہ بھی اپنی شوخ طبیعت کے باعث ہر سرگوشی میں اپنے کان گھسا دیتا تھا۔ جب سولہ سترہ سال سے لے کر چوبیس پچیس سالہ جوانوں میں ’’اے کے 47‘‘ اٹھا کرغاصب بھارتی فوج سے آزادی اور بدلہ بیک وقت لینے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس کے اندر بھی ایک مجاہد پرورش پا رہا تھا۔ اس نے بھی دل ہی دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ بھی مجاہد بن کران بھارتی فوجیوں کو ’’جہنم واصل‘‘ کرے گا۔ جس دن اس کے گاؤں سے چند افراد پر مشتمل مختصر قافلہ اس دشوار سفر پر روانہ ہوا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ اس کے ساتھی اسے بچہ سمجھ کر اپنے ساتھ لے جانے پر تیار نہ تھے لیکن اس کے پاس انہیں منانے کے لیے کارگر دھمکی موجود تھی کہ اگر وہ واپس گیا تو ان کے گھر جا کر بتا دے گا کہ وہ سرحد پار کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بادل نخواستہ اس ’’ضدی مصیبت‘‘ کو ساتھ لے جانے کی حامی بھرلی۔ جیسے تیسے وہ سرحد پار پہنچا تو مجاہدین کمانڈر نے اتنے چھوٹے بچے کو ساتھ لانے پراس کے ساتھیوں اور گائیڈز کو سخت برا بھلا کہا لیکن اب واپسی کا راستہ تو بند تھا لہذا اسے بھی ’’ٹریننگ‘‘ میں شریک کر لیا گیا۔ ادھر اس کے والدین نے اس کی تلاش شروع کی اور تھک ہار کر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ مرچکا ہے۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی دوسری موت تھی۔ رونا دھونا بھی ہوا اور ماتم بھی لیکن جب تک والدین اپنے لخت جگر کی لاش اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں انہیں اس کی موت کی خبر پر پوری طرح یقین نہیں آتا۔
اپنی دوسری موت کے تقریباً پانچ سال بعد اس نے اسی علاقے کے کسی مجاہد سے دور پار کا فون نمبر لے کر اپنے گھر پیغام بھیجا کہ وہ صحیح سلامت ہے اور آزادکشمیر میں ہے، یوں انہیں یقین آیا کہ ان کا بیٹا دلاور خان (فرضی نام) زندہ ہے۔ ادھر اس کی کم عمری کے باعث مجاہد کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ ابھی اس کی پڑھنے کی عمر ہے لہذا اسے کیمپ سے نکال کر ایک فلاحی ادارے کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک اور مجاہد جو اس کا ہم نام تھا وہ ایک فدائی حملے کے بعد بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہوگیا۔اس کی لاش بھی ناقابل شناخت ہوکر رہ گئی۔ وادی میں جب دلاور خان کی شہادت کی خبر پھیلی تو اس کے والدین تک بھی پہنچ گئی۔ نیز ان کے کسی جاننے والے مجاہد نے انہیں خود جا کر بتایا کہ شہید ہونے والا دلاور ہی تھا۔ یہ اس کی تیسری شہادت یا موت تھی۔ ان دنوں سرحد کے دونوں اطراف موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے لہذا اس نے اپنے والدین کے تیسرے ماتم کے کافی عرصے بعد کسی طرح فون کرکے ان سے بات کی تو انہیں اس بات پر یقین نہ آیا کہ وہ ان کا بیٹا ہی ہے۔ اس نےاپنے بچپن کے قصے سنا کر اور گھر کی کچھ باتیں بتا کر انہیں پھر سے یقین دلایا کہ وہ زندہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب بھی وہ گھر پرفون کرتا تھا، اس دن ان کے گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا کیونکہ تھوڑی دیر بعد بھارتی فوج آ کر اس کے گھر پردھاوا بول دیتی تھی۔ اس کے والد اور بھائیوں پر تشدد کیا جاتا۔ وہ دن تو زخم سہلانے میں گزرجاتا۔
اس کے والد کا انتقال دو سال پہلے ہی ہوا ہے لیکن جب تک وہ زندہ رہے ہر ہفتے انہیں پولیس سٹیشن پر جا کرحاضری دینا پڑتی تھی۔ دلاور جب گھر سے نکلا تھا، اس وقت وہ چودہ پندرہ سال کا بچہ تھا لیکن اب وہ چھتیس سال کا باشعور آدمی ہے۔ میری زندگی کے کئی سال اس کی رفاقت میں گزرے ہیں۔ میں اس کے شب و روز کا گواہ ہوں۔ میں نے اسے مسلح تحریک کے بانیوں کو کوستے بھی سنا ہے۔گزشتہ عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر پاکستان کی خاموشی کے باعث ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اس کے شکوے بھی سنے ہیں لیکن اب عمر کے اس حصے میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک نے اس کے اندر چودہ سالہ دلاور کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ماں اور باپ کو تین بار اپنی شہادت کی خبر سنانے والا دلاور اب اکیلی ماں کو اپنی چوتھی شہادت کی خبر سنانے کے لیے بےتاب نظر آتا ہے۔
تبصرہ لکھیے