ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر جاننا ضروری ہے کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کے بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کے لیے منسوخ فرما کر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیاگیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم ﷺ کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’’اسلامی قمری ہجری‘‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جو ان کی یاد دلاتا رہےگا۔
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گر ہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلنڈر کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔شریعت محمدیہ ﷺ میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرہ کا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں۔ عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈمیکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلا دی۔ ہمیں اپنے بچوں کواہتمام و خصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یادکرانے چاہییں۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتا ہے۔ قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض سالوں میں 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سا مہینہ کتنے دنوں کا ہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام سالوں میں 28 دن کا لیا جاتا ہے اور لیپ (چار پر تقسیم ہونے ولا ہر چوتھاسال ) کے سالوں میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 اور لیپ کے سالوں میں 366 دن ہوتی ہے۔
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا: بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیداہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس) نہایت مسرت افزا ہوتی ہے، اہل اسلام عید الفطر کے ہلال کی امکانی رؤیت و عدم رؤیت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیبی نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا: صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا: ایک شخص اٹھارہ بیس سال کی عمر میں رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچاس ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتا ہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما، موسم بہار اور موسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کر پائےگا۔ اگر اس طرح کے احکام کے لیے شمسی مہینے متعین کیے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرما میں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لیے ہمیشہ پابند ہو کر رہ جاتے اور ان احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھا سکتے. اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنا دی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔
سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعۃ المبارک کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردار ہے۔ ہجری تقویم میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو، دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں۔ شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کے لیے یہی تقویم مستعمل تھی، بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ اس سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کر دیا گیا تھا. اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول ﷺ کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک وخون میں تڑپایا گیا، لہٰذا یہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لیے بصد دل و جان تیار ہو جانا، کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے۔
اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہیے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہییں اور اسے استعمال بھی کرناچاہیے، کہیں ایسانہ ہو کہ آئندہ چندسالوں میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محوہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔
(مولانا محمد جہان یعقوب، سینئر ریسرچ اسکالر جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر و ڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار المدارس،کراچی)
تبصرہ لکھیے