ہوم << کیا اچھے کافر بھی جہنم میں جائیں گے؟ : ایوب حامد

کیا اچھے کافر بھی جہنم میں جائیں گے؟ : ایوب حامد

اللہ تعالیٰ کے نظام ِ عدل و رحمت کا مختصر جائزہ
یہ ایسا موضوع ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کے بغیر محض انسانی مشاہدے کی بنیاد پہ سمجھ میں نہیں آ سکتا ، لیکن پھر بھی انسان کے اپنے رویّے پر غور مفید ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہم اپنی گفتگو کا آغاز اسی سے کرتے ہیں۔
انسان کے خود اپنے رویے پہ غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی چیز اس لئے بنائی جاتی ہے کہ وہ بنانے والے کا مقصد پُورا کرے جو چیز بنانے والے کا کوئی مقصد پورا نہیں کرتی وہ رد کردی جاتی ہے۔ بنائے جانے کے بعد ہرمشین ٹیسٹ کی جاتی ہے، جو مشین اپنا کام کرتی ہے اس کا خیال رکھا جاتا ہے ،جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے، تیل وغیرہ دیا جاتا ہے۔ جو مشین کام نہ کرے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر کوشش کے باوجود بھی وہ کام نہ کرے تو خواہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی اچھی لگے، اسے نا کارہ قرار دے کر کباڑ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس پر کتنی گرد پڑتی ہے ،اور اسے کتنا زنگ لگتا ہے ۔
اس لحاظ سے کسی بھی چیز کا بنانے والا اس کا مالک ہوتا ہے جو اپنی بنائی ہوئی چیز سے اپنا مقصد پورا کرنے( اطاعت) کی توقع رکھتا ہے ۔ یُوں تو یہ بات ہر بنائی ہوئی چیز پر صادق آتی ہے ،لیکن اگر اس کو روبوٹ پر لاگو کیا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ خالق اور مخلوق کا رشتہ آقا اور غلام کے رشتے کے مترادف ہوتا ہے ۔لفظ خالق یہاں بنانے والے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں انسان کچھ بھی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ انسان تو محض اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ردّو بدل کر کے اپنے استعمال کی اشیاء بناتا ہے ۔اگر انسان تخلیق پر قادر ہوتا اور خاص طور پر اگر انسان زندہ چیزیں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا تو پھر وہ اپنی ہر مخلوق سے مکمل غلامی اور اطاعت طلب کرتا۔
بہرحال اس مشاہدے کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کے اپنے رویّے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خالق اور مخلوق کا رشتہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے اور مخلوق کا فرض خالق کی غلامی ہے ۔ جو مخلوق آقا کی غلامی کرنے میں ناکام رہے اس کا مقدر کباڑ خانہ ہوتا ہے ۔
اب آگے جانے سے پہلے ذرانظامِ کائنات کاجائزہ لے لیں، پھر اللہ تعالیٰ کے نظام ِ عدل و رحمت کی طرف آئیں گے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ اس محیّرا لعقول اور لامتناہی کائنات اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا اور اس زمین پر بسنے والی نوعِ انسانی کا خالق ہے خالق ہونے کی وجہ سے وہ اپنی مخلوق کا مالک ہے اور آقا بھی اور اس کا حق ہے کہ اس کی تخلیق اس کی عین مرضی کے مطابق چلے، غلامی کرے اور اس کے مقاصد پورے اور جو ایسا نہ کرے وہ اسے حسبِ جرم رد کردے یاسزا دے ، یا جو غلام بننے سے انکار کرے اسے بغاوت کی سزا دے۔
۲۔ اس نے اپنے بارے میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ قائماً بالقسط ہے یعنی عدل و اعتدال و توازن وانصاف قائم کرنے والا ہے۔ کائنات کی تخلیق اس کے اصولِ قسط ہی کی مرہونِ منّت ہے ۔ کائنات کا چلن اور اس کا نظام بھی اصولِ قسط کی وجہ سے قائم ہے ۔اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ توازن و اعتدال ہی خلامیں اجرامِ فلکی کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ زمین ، چاند، سورج، ستارے، کہکشائیں سب اسی توازن و اعتدال پر ہی قائم ہیں۔ انسانی جسم کا ہر خلیّہ اور پورا جسمانی نظام بھی اسی توازن و اعتدال کے ذریعے صحت بر قرار رکھتا ہے ۔ غرضیکہ کائنات میں ہر چیز اللہ کے پیدا کردہ قسط (توازن واعتدال) کی وجہ سے قائم ہوتی اور اپنے کام کرتی ہے ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فیصلے کرنے کی آزادی عطا کی تو اس کے ساتھ یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اپنے مختلف معاملاتِ زندگی میں نقاطِ قسط و عدل یا توازن و اعتدال صحیح طور پر متعین نہیں کر سکے گا۔ تو کمالِ عنایت و رحمت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی صورت میں نظامِ قسط و عدل و توازن و اعتدال بھی عطا کر دیا کہ انسان کی کمزوریوں کا ازالہ اللہ تعالیٰ کے کامل علم و حکمت پر مبنی ہدایت سے ہو جائے۔اور انسان اپنے معاشرے میں اور فیصلوں میں اپنی استطاعت کے مطابق قسط و عدل و توازن قائم رکھ سکے۔ سور ہ آلِ عمران کی آیات ۱۸ اور ۱۹ میں انہی حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے ۔
’’اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی آقا یا خدا نہیں ہے ، وہ قسط کو قائم کرنے والا ہے ،اور یہی گواہی فرشتے اور اہلِ علم بھی دیتے ہیں۔ اُس کے سوا کوئی آقا یا خدا نہیں ہے ، وہ غالب اور حکمت والا ہے ۔ اللہ کے ہاں قابلِ قبول دین ( طرزِ زندگی) صرف اسلام ہے‘‘ ۔
۴۔ اس رحمت و کرم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اور بھی بڑی رحمت و عنایت کرتے ہوئے رسولوں کو بھیجنے کا اہتمام کیا تا کہ وہ عملی طور پر بھی معاشرے کو نظامِ قسط پر استوار کر دیا کریں۔
لہٰذا سورہ الحدید کی آیت ۲۵ بتاتی ہے ’’یقیناً ہم نے واضح دلائل و تعلیمات کے ساتھ رسول بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمائے تا کہ لوگ قسط پر قائم ہوں‘‘۔
لہٰذا لوگ اگراسلام کے نظامِ قسط کے مطابق رہیں گے تو انسانی معاشرے میں عدل و اعتدال ، توازن امن و احسان کی فضا قائم رہے گی۔
۵۔ مگریہ بھی ظاہر ہے کہ فیصلے کی آزادی کی وجہ سے کچھ لوگ خالق کا دیا گیا نظام قبول کرنے سے ہی انکار کر دیں گے ، اور خالق کی اطاعت کی بجائے باغی بن جائیں گے۔ اسی طرح کچھ لوگ خالق کو اپنا مالک تو تسلیم کریں گے مگر اس کے نظامِ قسط والے دین ِ اسلام پر عمل کرنے میں کوتاہی کریں گے اس طرح کی بغاوتوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے معاشرے میں نا انصافی فساد اور بد امنی پھیلے گی۔ اس قسم کے لوگوں کو چھانٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عارضی دار الامتحان بنا دیا اور آخرت کو دارالبقا بنا دیا کہ دنیا میں لوگوں کو امتحان کے طور پر رکھا جائے اور اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع دیا جائے ۔ جب امتحان کی مدت ختم ہو جائے تو موت کے ذریعے لوگوں سے امتحانی پرچہ واپس لے لیا جائے، اور یوم قیامت کے دن نتیجہ سنا یا جائے ۔ فیل ہونے والے باغیوں اور نا فرمانوں کو جہنم میں قید کر کے یا کباڑ خانے میں پھینک کر اطاعت گذار انصاف پسندوں کو ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتیں دے دی جائیں۔لیکن رحیم و کریم ہونے کی وجہ سے وہ خراب لوگوں کو ٹھیک کرنے کے لئے دعوت و ہدایت کے ذررائع بھی مہیاّ کرتا ہے ۔اور جو لوگ اس ٹیسٹ کے دوران کسی وقت بھی سُدھر جائیں، وہ انہیں اچھیغلاموں میں شمار کر لیتا ہے ۔
یاد رہے کہ اس امتحان سے اللہ تعالیٰ کے علم میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم تو ہر چیز پر محیط ہے ۔ مگر یہ عارضی امتحان کا انتظام خود انسان کی نظر میں انصاف کے تقاضے پُورے کرنے کی خاطر کیا گیا ہے، تا کہ ہر فرد اپنا اچھا یا خراب ہونا ، غلام یا باغی ہونا اپنے عمل سے دکھا دے ۔ اور جب اسے سزا دی جائے تو اس کے پاس شکایت کرنے کا کوئی جواز نہ ہو۔
۶۔ اس دنیا کی زندگی میں یہ امتحان ہر فرد کا کلیتاً ذاتی امتحان ہے ۔ ہر فرد اپنی کارکردگی کا ذمہ دار ہے اور آخرت میں اس کا نتیجہ پائے گا۔ کوئی شخص کسی اور کا امتحان نہیں دے سکتا، نہ ہی کسی اور کی کار کردگی کا نتیجہ بُھگت سکتا ہے ۔یہ اجتماعی یا قومی امتحان ہر گز نہیں ہے، نہ ہی قوم کے اخروی حساب کا کوئی تصور ہے۔
۷۔ فرد کے امتحان میں اللہ تعالیٰ خود بھی دخل اندازی نہیں کرتا ۔ امتحان کے دوران انسان جو بھی فیصلے کرنا چاہتا ہے کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ نہ تو اسے فیصلہ کرنے سے روکتا ہے اور نہ ہی کسی فیصلے پر مجبور کرتاہے اور نہ ہی دورانِ امتحان اس کے کسی فیصلے کی جزا و سزا دیتا ہے ۔ فرد کی کارکردگی کا جائزہ اور اس کے مطابق جزا اور سزا موت کے ذریعے امتحان ختم کرنے کے بعد صرف قیامت کے روز کے لئے اُٹھا رکھی گئی ہے ۔
۸۔ اکژاوقات معاشرے میں شرپسند اور فسادی حضرات کا غلبہ اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ اصلاح پسند حضرات ان کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ ایسے فسادی معاشرے میں نئی نسلوں کو اسلام اور اس کے نظامِ قسط کے بارے میں جاننے کے کوئی ذرائع باقی نہیں رہتے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ نیا رسول بھیج کر اسلام کا نظامِ قسط ازسرِ نو متعارف کروا دیا جائے تا کہ افراد کے امتحان میں کوئی نا انصافی نہ ہونے پائے ۔ کیونکہ اگر اسلام کے نظامِ قسط کا علم معدوم ہو جائے تو افراد سے اس کو اپنانے کی توقع عبث ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا نیا رسول معاشرے میں ازسرِ نو اسلام کو متعارف کرواتا ہے ، اور اس کو پوری طرح نافذ کرتا ہے ۔ اگر اس کے پیرو کار اتنے اکثریت میں نہیں ہوتے کہ اسلام کا نظامِ قسط نافذ کر سکیں، تو اسلام کے مخالفین کو رسول کی دعوت کا مناسب وقت دئیے جانے کے بعد تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی رسول کی مسلسل دعوت کے بعد جب وہ اپنا باغی ہونا ثابت کر دیتے ہیں، تو موت کے ذریعے ان کا امتحان ختم کر دیا جاتا ہے، یعنی امتحانی پرچہ واپس لے لیا جاتا ہے ۔ ایسی تباہی صرف رسول بھیجنے اور اس جدوجہد کے بعد آتی ہے اور کفار کے معاشرے پر مجموعی طور پر آتی ہے،جبکہ مومن بچا لئے جاتے ہیں ۔ لیکن افراد کی جزا و سزا کا حساب کتاب اس صورت میں بھی آخرت پر اُٹھا رکھا جاتا ہے ۔
یاد رہے کہ چونکہ نبوتِ محمدیؐ کے بعد اسلام کے نظامِ قسط کا علم اتنا محفوظ ہو چکا ہے کہ قیامت تک جو بھی چاہیے اسے اس کا پورا علم مل سکتا ہے ۔یعنی اب اسلام کے نظامِ قسط کے علم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور اس کے معدوم ہونے کا موقع باقی نہیں رہا ،لہٰذا رسولِ اکرمؐ کو آخری نبی اور آخری رسول بنا دیا گیا۔ اب علم محفوظ ہے ، اس کو عمل میں لانے کے لئے صرف مصلحین کی ضرورت ہے جو تمام انسانوں کو اسلام کے نظامِ قسط کی طرف مسلسل بلاتے رہیں اور اس کے نفاذ اور اقامت کی مسلسل جدوجہد کرتے رہیں۔
یہ ہے اللہ تعا لیٰ کا نظام دنیا و آخرت۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ اللہ تعالیٰ اس نظام میں خود لوگوں کے ساتھ کیسے برتائو کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ عام طور پر لوگوں کے ساتھ رحمت کا برتائوکرتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی بہت ہی بُرا ہو جائے کہ وہ اللہ کی رحمت کے بالکل قابل نہ رہے ،تب اللہ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی مکمل انصاف کا برتائو کرتا ہے ۔کسی کے ساتھ ذرہ برابر بھی نا انصافی نہیں کرتا لوگوںکے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عدل و رحمت کا برتائو کرنے کے دو پہلو ہیں، یعنی دنیاوی پہلو اور اخردی پہلو۔
دنیا میںاللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ مندرجہ ذیل طریقوں سے رحمت کا برتائو کرتا ہے۔
۱۔ چونکہ انسان اللہ تعالیٰ کا پیدائشی غلام ہے ۔ اس کو نا فرمانی کی سزا دینا اللہ کا حق ہے مگر اللہ تعالیٰ کسی بھی فرد کو، بدترین سے بدترین مجرم کو بھی، فوراً سزا ہر گز نہیں دیتا بلکہ توبہ و اصلاح کا پورا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور امتحان کا وقت مکمل طور پر ختم ہونے تک یعنی موت کے غرغرے تک اسے توبہ و اصلاح کا موقع دیتا ہے ۔
۲۔ جو فرد کسی وقت بھی توبہ کرلے اور اس کو اپنا آقا و مالک مان لے، اللہ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کسی نا فرمان کو اپنی پیدا کردہ چیزوں کے استعمال سے محروم نہیں کرتا ۔حالانکہ جو اس کا نا فرمان یا باغی یا اس کا مالک ہونے کا انکاری ہو، اس کو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں کے استعمال کا کوئی حق نہیں رہتا ۔ مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پیدا کئے گئے وسائل کے استعمال سے محروم نہیں کرتا۔
۴۔ بندے جب خلوص سے اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں سنتا ہے ،اور جواب دیتا ہے ۔
جہاں تک دنیا میں لوگوں کے ساتھ عدل کرنے کا تعلق ہے اس معاملہ کو یوں سمجھیں کہ جس طرح صحیح اور درست امتحان کے لئے ضروری ہے کہ ممتحن ہر امید وار کے ساتھ کمرئہ امتحان میں ایک جیسا برتائو کرے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دنیاوی ٹیسٹ کا خاصہ یہ ہے کہ ٹیسٹ کے دوران ہر ایک سے پورا انصاف کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ انصاف لوگوں کے اعمال کے قدرتی نتائج کے ذریعے ہوتا ہے ۔کیونکہ انسان اس دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے اس کا ایک قدرتی نتیجہ ہوتا ہے ، جو تمام اچھے اور برے لوگوں کیلئے یکساں ہو تا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان عدل ہے کہ باغی سے باغی فرد بھی دنیا میں اپنی محنت کا پھل ضرور پاتا ہے اور اچھے سے اچھا انسان بھی اپنی غلطی کا خمیازہ ضرور بھگتتا ہے۔
اعمال کے قدرتی نتائج اللہ تعالیٰ کی عائدکردہ اس تقدیر کا حصہ ہیں جو بدل نہیں سکتی ۔ چنانچہ لوگ فیصلے کرنے میں آزاد ہیں کہ وہ جو چاہیں فیصلے کریں لیکن اپنے فیصلوں کے نتیجے میں وہ جو عمل بھی کرتے ہیں اس کے قدرتی نتائج سے نہ بچ سکتے ہیں،نہ بدل سکتے ہیں، نہ اضافہ کر سکتے ہیں، نہ کمی کر سکتے ہیں ۔اور وہ قدرتی نتائج ہر ایک کے لئے وہی ہوتے ہیں خواہ مسلمان کرے یا کافر، اچھا آدمی کرے یا بُرا، چھوٹا کرے یا بڑا، امیر کرے یا غریب۔ یہ ایسی تقدیر ہے جو دعا سے بھی نہیں بدلتی ۔ اس معاملے میں انسان کی نیت ، عقیدے ، سوچ ، ذہنیت وغیرہ کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ یہ فطری نتیجہ عمل سے منسلک ہے اس کے محرکات سے نہیں۔لہٰذا ہر ایک کو ہر کام کا قدرتی نتیجہ ضرور ملتا ہے ، نہ بُرے آدمی کو قدرتی نتیجے سے محروم کیا جاتا ہے نہ اچھے انسان کو۔ جو بھی اچھی خوراک کھائے وہ صحتمند ہوتا ہے جو بھی خراب چیزیں کھائے اس کی صحت خراب ہوتی ہے ۔ کافر ہو یا ولی اللہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جسم کاٹو تو دونوں کا لہو بہتا ہے ،جس کا بھی لہو زیادہ بہہ جائے وہ مر جاتا ہے ۔ جو ورزش کرے اس کے اعضاء مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر مسلمان سارا دن سستی سے بیٹھا رہے تو بیمار یاں لا حق ہو جاتی ہیںاور اگر کافر بھی چاق وچوبند رہے تو اس کا نظام ٹھیک رہتا ہے ۔زہر کا بھی دونوں پر ایک جیسا اثر ہوتا ہے ۔ اسی طرح جو محنت و تحقیق کرے وہ ترقی کر لیتا ہے جو کام چوری اور جہالت اختیار کرے وہ تنزلی کا شکار ہوتا ہے ۔ جو محنت کرے وہ پھل پاتا ہے ۔ جو بوتا ہے وہ کاٹتا ہے ۔
اسی طرح کا انصاف اخلاق و کردار کے قدرتی نتائج میں بھی ہے ۔ جو سچ بولے اس پر بھروسہ کیا جاتا ہے ، جھوٹے کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ دیانتداری سے کاروبار کی ساکھ بنتی ہے ،بددیانتی سے لوگوں کا اعتمادختم ہو جاتا ہے ۔ اچھی مصنوعات سے کاروبار میں ترقی ہوتی ہے، دھوکہ دہی سے گاہک چھٹ جاتے ہیں۔ خوش اخلاقی سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے ،بداخلاقی سے وقار مجروح ہوتا ہے ۔ سخی کی لوگ قدر کرتے ہیں، چورکو لوگ بُرا بھلا کہتے ہیں۔ علیٰ ھٰذا لقیاس۔
قصّہ مختصر یہ ہے کہ دنیا کے ر وز مرّہ کے معاملات میں ہر انسان کو اپنے کئے کے قدرتی نتائج پُورے انصاف کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ نہ توکسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نا انصافی ہوتی ہے،نہ ہی کسی کا اللہ پر کوئی حق رہ جاتا ہے ،جسے اللہ تعالیٰ کو آخرت میں چکانا ہو۔
آخرت میں یومِ حساب اللہ تعالیٰ کے کامل و اکمل انصاف کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ دنیوی امتحان کے نتائج کا اعلان کرے گا۔ دنیاوی زندگی میں ہر شخص نے ہر آن جو پرچہ لکھا ،وہ اسے لوٹا یا جائے گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنا حساب بھی چکائے گا، اور لوگوں کی ایک دوسرے سے زیادتیوں کا حساب بھی چکا یا جائے گا۔ یہانتک کہ ہر ایک کے ساتھ پُورا پُورا انصاف ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا اپنا حساب سارے کا سارا عقیدوں اور محرکات پر مبنی ہو گا۔ اس میںکامیابی صرف اس کی ہو گی جس نے اپنے خالق و مالک کو بالکل اسی طرح اپنا آقا مانا جیسا کہ اسے ماننے کا حق تھا اور جیسا کہ آقا نے خود بتایا تھا کہ مجھے اسی طرح مانو۔ کامیابی اور ناکامی کا تعین اس حساب پر ہو گا کہ آقا کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق اس کی عملی غلامی کی یا نہیں، روز مرہ کے فیصلے کرتے ہوئے مالک کے سامنے جوابدہی کاایسا احساس اور خوف جیسا کہ اُس کا حق تھا رکھا یا نہیں، یا اس بات کی پرواہ ہی نہ کی۔ یا اس کی ایسی رضا کی خواہش کی جیسا کہ اس کو راضی کرنا ہم غلاموں پر فرض ہے یا نہیں کی۔ اگر ان بنیادی اور لازمی سوالوں میں سے کسی سوال کا جواب بھی نفی ہوا تو وہ شخص فیل ہو گا۔ مخلوق نے خالق کا انکار کر کے یا اس کے سامنے جوابدہی کے بارے میں کسی قسم کا شک کر کے خود کو کباڑ خانے کا مستحق بنا لیا۔ پیدائشی غلام اپنے آقا سے بغاوت اور غداری کرنے کی وجہ سے عذاب کا مستحق ٹھیرے گا۔یہ عذاب انصاف کا عین تقاضا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کا جرم اس کا متقاضی ہے بلکہ یہ بھی کہ ان کو سزا نہ دینا وفادار اور مطیع فرمان غلاموں کے ساتھ ناانصافی ہو گی کہ باغیوں اور وفاداروں کے انجام میں کوئی خاص فرق نہ رہا۔
امتحان کا یہ حصّہ ایسا ہے کہ انسان یا پاس ہوتا ہے یا فیل۔ اسے ۱۰۰ فی صد نمبر ملتے ہیں یا صفر فی صد ۔ درمیانی کوئی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ جس نے صحیح طور پر آقا کی غلامی قبول کی تھی وہ پاس ہوا۔ جس نے آقا کے بارے میں غلط عقیدہ رکھا تھاوہ باغی ٹھہرا،اور بغاوت کی شدید سزاپائے گا۔ جو اس ٹیسٹ میں نا کام ٹھیرا، اس کے اچھے اعمال کی کوئی وقعت نہیں ہو گی۔اعمال کے قدرتی نتائج کو ان کو دنیا میںمل چکے تھے اب ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔ اور چونکہ یہ زندگی ہمیشہ کی زندگی ہو گی ، لہٰذا یہ سزا بھی ہمیشہ کے لئے ہو گی ۔کباڑخانے سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہو گی۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے خدا کو تو مانا مگر خدا کے بارے میں عقیدہ غلط اپنا لیا اور اللہ کی بجائے کچھ اور معبود بنا لئے ہوں اور اس کے لئے بہت محنت مشقت اور قربانیاں دی ہوں ، تب بھی وہ اس سوال میں فیل ہی ہونگے اور باغی ہی گنے جائیں گے۔ رہی ان کے اپنے عقیدے کے لئے قربانیاں تو اس کا صلہ وہ ان سے مانگیں جن کو انہوں نے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا لیا تھا۔
جو فرد عقیدہ کے حصّے میں پاس ہو گیا اس کے امتحان کا دوسرا حصّہ یہ ہے کہ آقا نے جو نظامِ زندگی اسلام کی صورت میں دیا تھا ۔ اس نے زندگی کس حد تک اس کے مطابق گذری ۔ زندگی کا ہر وہ معاملہ جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہو اسے عملِ صالح کہتے ہیں۔ لیکن عملِ صالح بھی صرف وہ مانا جائے گا جس کے پیچھے نیت درست ہو گی، کام اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو گا۔ اگر عمل کے محرکات میں کوئی خرابی ہو گی، تو وہ عمل بھی غارت جائے گا۔ اور اس کو رد کرنے میںکوئی نا انصافی نہ ہو گی کیونکہ عمل کے قدرتی نتائج کے مطابق تو دنیا میں انصاف کیا جا چکا تھا۔ اب اچھے عمل کا انعام تو صرف اس کو دیا جائے گا جس نے اُسے اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہو گا۔ لہٰذا آخرت میں پاس ہونے کیلئے اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق عقائد کا درست ہونا، اعمال کا درست ہونا اور نیت کا درست ہونا ۔ تینوںکی درستگی ضروری ہو گی۔
کامل انصاف کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا میںجن لوگوںکے ساتھ زیادتیاں ، نا انصافیاں یا ظلم کیا گیا ہو اور دنیا میںان زیادتیوں ، نا انصافیوں یا ظلم کا مناسب حساب نہ چکا یا جا چکا ہو یا مظلوم کی طرف سے اپنی خوشی اور آزادی سے معافی نہ دی جا چکی ہو تو ان مظلوموںکو پُورا پُورا انصاف دیا جائے۔ اس انصاف کے لئے یومِ حساب میں کرنسی تو صرف اعمال کی ہو گی اگرظالم کے پاس نیکیاں ہو نگی تو اُتنی نیکیاں مظلوم کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دی جائیں گی جن سے مظلوم کی زیادتی کا منصفانہ بدلہ مل سکے ۔ اگر نیکیاں نہ ہونگی یا کم ہو نگی تو مظلوم کی اتنی بُرائیاں ظالم کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دی جائیں گی جن سے ظلم کا منصفانہ بدلہ مل سکے۔کافر، باغی اور نا فر مان جو پہلے ہی جہنم کے مستحق ہو نگے اس حساب کتاب کے سبب ان کے عذاب کی شدّت میں اضافہ ہو جائے گا، یا کمی ہو جائے گی، مگر عذاب سے نجات ممکن نہیں ہو گی ۔ وہ مسلمان جو جنت میںجانے والے ہونگے ان کے درجات میں بھی اضافہ یا کمی ہو گی۔ بلکہ بعض جنتی اپنے ظالمانہ روّیے کی وجہ سے لوگوں کی بُرائیاں اپنے کھاتے میںلے کر جہنم رسید ہو جائیں گے۔
یہ ہے اللہ کا اخروی انصاف کا نظام۔ اس تفصیل کو پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا جزا و سزا کا نظام آپ پر طرح واضح ہو جانا چاہیے اور یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ کفار خواہ کتنے ہی اچھے کام کیوں نہ کر گذرے ہوں انکی بغاوت کی سزا اللہ تعالیٰ کے انصاف کا عین تقاضا ہے ۔
اس بارے میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے کہ اگر کسی کافر کو صحیح عقیدے کا علم ہی نہ ہو تو اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس سلسلے میں یہ بات یا د رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا جزا و سزا کا پُورا نظام سمجھا دیا ہے تا کہ ہم اس سے ہدایت حاصل کریں اور اپنی نجات و کامیابی کی فکر کر لیں۔ اس نے وہ ساری تفصیلات ہمیں نہیں بتائیں جس کے ذریعے وہ اپنے فیصلے کرے گا۔ اس کا علم لا محدود ہے، وہ نیتوں کا حال جاننے والا ہے۔ اس کو بخوبی علم ہے کہ کس شخص کے پاس ہدایت پانے کے کیا مواقع تھے اور اس نے ان مواقع کو کیسے استعمال کیا۔ وہ انصاف کرنا بخوبی جانتا ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے معاملات میں اپنی رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے ، نہ اندازے لگانے چاہییں،اس کو ہماری رائے اور مشورے یا اندازے کی ضرورت نہیںہے۔ اس کے بندے ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کا نظام ِ جزا و سزا بے کم و کاست لوگوںکو بتا دیں ۔ اور جزا اور سزا کے عملی فیصلے اس پر چھوڑ دیں اور ان بحثوں میں مت پڑیں جو ہمارے علم اور استطاعت سے بالکل ماورا ہیں۔
اب رہ گئی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ، تو آخرت میں اللہ کی رحمت صرف مٔومنین کیلئے خاص ہو جاتی ہے، آخرت میں کفار کے ساتھ صرف کامل انصاف کیا جائے گا، رحمت کا سلوک نہیں ہو گا۔ مٔومنین پر اللہ کی رحمت متعدد طریقوں سے ہو گی۔
۱۔ آسان حساب یعنی ہر نا فرمانی کا حساب لینے کی بجائے عمومی فرمانبرداری کی وجہ سے نا فرمانیوں کی بخشش اور کامیابی کی نوید دینا۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے فرما نبردار بندوں کا جنت میں داخل کرنا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت کے انعامات محض اپنے کرم اور مہر بانی کے طور پر عطا کرے گا ورنہ دنیا میںغلامی کرنا اور اس کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دیناتو ان کا فرض تھا وہ انہوں نے ادا کیا، اللہ پہ کوئی احسان نہیں کیا ، اورپھر زندگی میں ان کو اپنے اچھے اعمال کے قدرتی نتائج بھی ملے ۔ لہٰذا جنت کی نعمتیں تو محض اللہ رحیم و کریم کا انعام ہے کسی کا استحقاق نہیں ہے ۔ اسی لئے رسولِ اکرم ؐنے فرمایا کہ جنت میں لوگ محض اللہ کے فضل کی بدولت جائیں گے، اعمال کی وجہ سے نہیں۔ بہر حال یہ یاد رہے کہ اگرچہ اچھے اعمال غلام کی طرف سے اپنے فرض کی ادائیگی ہیں، اور ان کی بدولت کسی کا اللہ پر کوئی حق نہیں بنتا، مگر اللہ تعالیٰ ان اعمال اور قربانیوں کے حساب سے ہی اپنے فضل ورحمت سے نوازتا ہے اور اپنی قربت عطا فرماتا ہے۔
۳۔ انسان کے اچھے اعمال کی کیفیت اور کوالیٹی کی اوسط نکالنے یا گھٹیا کوالیٹی کے اعمال کے مطابق جزا دینے کی بجائے بہترین کیفیت اور کوالیٹی کے اعمال کے مطابق انعام دینا۔
۴۔ خلوصِ نیت کی عمدگی اور بے پناہ جذبۂ قربانی کی بنا پر غلام کی کارکردگی سے کہیں زیادہ انعام و اکرام دینا۔
ٌٌٌٔٔٔ
نوٹ: ۔ اس مضمون میں ہر نکتہ قرآن و حدیث کی ٹھوس تعلیمات پر مبنی ہے، مگر طوالت سے بچنے کیلئے دو مقامات کے علاوہ حوالے دینے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اہلِ علم حضرات کوتو مضمون پڑھتے ہوئے آیات وغیرہ یاد آتی جائیں گی، لیکن اگر کو ئی قاری حوالہ جات کامتلاشی ہو تو مجھ سے مانگ سکتا ہے۔ (میاں ایوب حامد)