انٹرنیٹ کہنے کو تو معلومات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی کی وجہ سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے عزیز رشتے داروں سے انتہائی آسانی اور سہولت کے ساتھ نہ صرف گفتوشنید کرتے ہیں بلکہ انکو چلتے پھرتے کام کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
طالب علموں کیلئے تو یہ قدرت کا یا پھر یوں کہہ لیں کے سائنس کا انمول تحفہ ہے۔کیونکہ انکی کتابوں سے جان چھوٹ گئی ایک کلک پر دنیا جہاں کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں بلاشبہ انٹرنیٹ نے ھماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں۔
آج کل ماں باپ اپنے بچوں کو آئی پیڈ,ٹیبلٹ جیسی خرافات دے کر بے فکر ھو گئے ھیں گھر کوئی آجائیتو بچے اپنے کمروں سے نہیں نکلتے۔پھر اگر ماں باپ سے پوچھ لیا جائیبھئی بچے کہاں ھیں سیدھا و سہل سا جواب ھوتا ھے اپنے کمرے میں گیم کھیل رہے ہیں,ماں باپ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ھم نے بچوں کو گھر میں رکھ کر انکو دنیا کے گندے ماحول سے بچا لیا ہے اور ان پر معاشرے میں پھیلتی برائیاں اثر انداز نہیں ھونگی لیکن یہ انکی سوچ ھے۔آئی پیڈ ٹیبلٹ کے نام پر انھوں نے بچوں کو گندگی کے ڈھیر میں غوطہ زن ھونے کا موقع فراہم کر دیا ھے آج کل بچے بڑے جوان بوڑھے سب نہیں تو کم از کم 80%لوگ انڑنیٹ کو فائدہ کیلئے کم اور ذہنی جسمانی اور شاید کبھی کبھی روحانی تسکین کے لئے بھی استعمال کرتے ھیں۔
ایک طرف تو ہم انٹرنیٹ سے قرآن او حدیث جیسی دینی معلوماتی اشیا تک با آسانی رسائی حاصل کر لیتے ھیں۔اسلامی سوال جواب سے متعلق ڈھیروں ویب سائٹ دستیاب ھیں اگر کسی کی شادی ھے ٹائم کم ہے تو کوئی مسلئہ نہیں آن لائن آڈر کرو چیز آپ کے دروازے پر مل جائے گی اسی طرح وہ خواتین جنکو کھانے بنانے نہیں آتے وہ کوئی بھی کوکنگ پروگرام آن لائن کسی بھی وقت دیکھ سکتی ہیں۔ان سب سہولیات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ہمارے بچوں ہمارے معاشرے پر انتہائی اذیت ناک اثرات بھی مرتب ھو رہے ہیں۔ آج کل بچے کارٹون چھوڑ چھاڑ انٹرنیٹ کے ھو گئے ھیں ۔
سب سے خطرناک نقصان انٹرنیٹ کا یہ ھے کہ اسکے بے دریغ استعمال سے جنسی بیراہ روی ھمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی جا رھی ھے۔
ھم آئے دن سنتے ھیں کہ کسی معصوم پری کو آدم ذاد نے اپنی ھوس کا نشانہ بنا ڈالا جب امیر سے امیر اور غریب سے غریب کو انتہائی سستے ریٹ میں تفریح کا بھر پور سامان دستیاب ھوگا تو وہ کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔جب کوئی فحاشی دیکھے گا تو وہ شریف تو ھونے سے رہا۔
برائی کہیں تو اثر انداز ھوگی آج کل نیٹ کی وجہ سے گندگی اتنی عام ہے کہ بناعورت اور مرد کی تفریق کے ہر کوئی اس میں مبتلا پایا جاتا ہے سوشل میڈیا پر میری گفتگو کچھ لوگوں سے ھوئی جنکی عمر بامشکل ۔16سال ھوگی۔
انکی گفتگو کسی طور پر بھی کسی مہذب گھرانے کہ فرد جیسی نہیں تھی۔اپنے طور پر میں نے سمجھایا مگر میں نے انکو ان فرینڈ کر دیا لیکن یہ مسلئہ کا حل نہیں ھے ھم ھربار حکومت سے گزارش نہیں کرسکتے کے اسکے سدباب کیلئے کچھ کریں۔
یہ ھماری ماؤں کی زمہ داری ھے کہ وہ کسطرح اپنے بچوں کی ذھنی او روحانی تربیت کرتی ھیں ھر ماں سے التماس ھے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں خدارا اپنی زمہ داری سمجھیں اور اپنے بچوں کو کھل کر جنسی تعلیم بر وقت دیں اگر ھم شرماتے رہ گئے تو ہمارے معصوم پھولوں کو کوئی بھیڑیا کھلنے سے پہلے بھنبھوڑ ڈالے گا۔
تبصرہ لکھیے