25تا27اگست 2016ء کو ریاستِ چیچنیا کے دارالحکومت ''گروزنی‘‘میں علمائے اسلام کی ایک عالمی کانفرنس''اَلْمُؤْتَمَرُ الْعَالَمِی لِعُلَمَائِ الْمُسْلِمِیْن‘‘ منعقد ہوئی۔اس کانفرنس کاموضوع تھا:''مَنْ ھُمْ اَھْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ ؟‘‘،یعنی ''اَہلُ السُّنَّۃ والجماعۃکون ہیں؟‘‘،بالفاظِ دیگر اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ کی متفقہ تعریف مقصود تھی۔اس کانفرنس میں شیخ الازہر ڈاکٹر محمد احمد الطیب ، جامعہ الازہر کے ریکٹر شیخ ابراہیم،مفتی اعظم چیچنیا شوکی الیَم،ڈاکٹر شیخ سعید عبداللطیف فُودہ (اردن)، شیخ الحبیب علی الجُفری (یمن)، شیخ ابوبکر (کیرالہ،انڈیا) اور دیگر علمائے کِبار شریک تھے۔چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف نے اس کانفرنس کی صدارت کی ۔ کانفرنس کی قرارداد اور اعلامیہ حسبِ ذیل ہے :
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ''اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ''یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ''اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ''مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے)۔
ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ اور حنابلَہ شامل ہیںاور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جُنید اورعلم ،اَخلاق اور تزکیہ میں اُن کے طریقِ اصلاح کے حامل ائمّہ ھُدیٰ شامل ہیں۔یہ علمی مَنہَج اُن علوم کا احترام کرتا ہے جو، وحیِ ربّانی کو سمجھنے کے لیے خادم کا درجہ رکھتے ہیں اور نفس وفکر کی اصلاح ،دین کو تحریف اور بے مقصد باتوں سے محفوظ رکھنے اور اموال اور آبرو کی حفاظت اور نظامِ اخلاق کی حفاظت کرنے میں ،اس دین کی اَقدار اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔
قرآنِ کریم کی حدود ہیںاور یہ تمام دینی علوم اس معنی میں بطورِ خادم اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہیںکہ جو اُس کے معنی ومراد کو سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں اورحیات ،تمدُّن ،آداب واخلاق ،رحمت وراحت ،ایمان وعرفان اور دنیا میں امن وسلامتی کے فروغ سے متعلق قرآن میں ودیعت کیے ہوئے اِن علوم کا استخراج (Deduction) کرتے ہیں اور اِس کے سبب اقوامِ عالَم ،مختلف طرزِ بودوباش رکھنے والوں اورمختلف تہذیب وتمدُّن کے حاملین پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دین تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادت کا باعث ہے ۔
اَھْلُ السنّۃ والجماعۃ کامَنْہَج تمام مَناہِجِ اسلام میں سے زیادہ جامع ،زیادہ ثِقہ ،زیادہ مضبوط ، علمی کُتب اور تدریس کے اعتبار سے شرعِ شریف کے مقاصدکے ادراک اور عقلِ سلیم کے لیے صحیح تعبیر کا حامل ہے اور تمام علوم اورحیاتِ انسانی کے تمام شعبوں میں بہترین ربط اور حسنِ تعلق کا آئینہ دار ہے۔اَہل السّنّہ والجماعہ کی علمی درس گاہوں نے صدیوں سے ہزاروں عُلَماء اورفُضَلاء پیدا کیے ہیں جو سائبیریا سے نائجیریا تک اور طنجہ(جبرالٹر کے بالمقابل مراکش کاساحلی شہر) سے جکارتا تک پھیلے ہوئے ہیں اور اِفتاء، قَضاء، تدریس اورخطابت کے شعبوں میں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے ہیں ۔اِن کی برکت سے انسانی معاشرت کو امان ملی ،فتنوں اور جنگوں کی آگ بجھی ،ممالک میں قرار وسکون آیا اور علم وعلوم کی اشاعت ہوئی۔
اَھل السنّۃ والجماعۃ اپنی پوری تاریخ میں اسلام کی صحیح تعبیر کر کے انحرافی فکر سے اِس کی حفاظت کرتے رہے ہیں ،وہ مختلف فرقوں کے نظریات اور مفاہیم کا جائزہ لیتے ہیں اور اُن کے لیے علم، نقد وجرح اورثبوت کے معیارات مقرر کرتے ہیں ،اِلحاد وانحراف کی کوششوں کا سدِّ باب کرتے ہیں ،تحقیق وتنقیح کے شِعار کے ذریعے خطا وصواب میں امتیاز کرنے کے لیے علوم کی ترویج کرتے ہیں ۔انہی کے منہَجِ علمی کے فروغ کے باعث انتہا پسندی کا سدِّ باب ہوااور امتِ محمدیہ کے تمدُّن کو فروغ ملا ۔اسی طبقے میں اسلام کے وہ عَبقری علماء پیدا ہوئے، جنہوںنے الجبرا،ریاضی، جیومیٹری، لوگارتھم، انجینئرنگ ،طب و جراحت، فارمیسی، حیاتیات، ارضیات، کیمیا، طبیعیات، فلکیات ،صوتیات وبصریات اور دیگر علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔
انحرافی فکر کا فتنہ ہر دور میں سر اٹھاتا رہا ہے ،یہ لوگ ہردور میں اپنی فکر کو قرآن وسنت کی طرف منسوب کرکے صحیح مَنہَجِ علمی کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،ان کی وجہ سے عام لوگوں کا امن وسکون غارت ہوجاتا ہے ،ایسی ہی گمراہ فکر کے حاملین قدیم دور کے خوارج تھے جن کاتسلسل ہمارے عہد کے وہ خوارج ہیں جو اپنے آپ کو سَلَفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ داعش اور اُن کی انتہا پسندانہ فکر کی حامل ساری تنظیموں میں یہ چیز بھی مشترک ہے کہ وہ دین کی مُسَلَّمہ اور مُتفقہ تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ، انتہا پسند ہیں ،جہالت پر مبنی باطل تاویلات کو دین سے منسوب کرتے ہیں ،اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اِن باطل تاویلات کے بَطن سے تکفیری اور تباہ کُن فکر،خوں ریزی اور تخریب وفساد جنم لیتا ہے اور اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے۔اِن کی برپاکردہ جنگوںاور حق سے تجاوز کا تقاضا ہے کہ دینِ حنیف کے حاملین برملا اِن سے برائت کا اعلان کریں اور یہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہوگا:''بعد میں آنے والوں میں سے اس دین کے حامل وہ انتہائی منصف مزاج علماء ہوں گے، جواِس دین کو انتہا پسندوں کی تحریف ، باطل پرستوں کی بے اصل باتوں اور جاہلوں کی تاویلوں سے پاک کریں گے،(شرح مشکل الآثار:3884) ‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ کانفرنس ایسا سنگِ میل ثابت ہوگی جو اِلحادی فکر کی اصلاح کرے گی اور انتہا پسندوں کے باطل اجتہاد ات وتاویلات کے ذریعے اھل السّنّۃ والجماعۃ کے لیے جو خطرات پیدا ہوچکے ہیں ،اُن سے نجات کا باعث ہوگی۔اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ہماری بڑی درس گاہوں میں اس اِنحرافی فکر کو رد کرنے کے لیے مضبوط علمی استدلال کا طریقہ اختیار کیا جائے اورتکفیر اور انتہاپسندی سے نجات پانے کے لیے امن وسلامتی کے اسلامی پیغام کو پورے عالَمِ انسانیت کے لیے عام کیا جائے تاکہ ہمارے ممالک سب کے سب ہدایت کے سرچشمے اور مَنارۂ نور بنیں ۔
یہ تفصیلات میں نے سہل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امتِ مسلمہ میں عالَمی سطح پر جو اضطراب ہے ، تمام مذہبی طبقات کو اس کا صحیح ادراک ہوجائے ۔میری دانست میں اِس کی ضرورت، دورِ حاضر میں بعض لوگوں کے خود وضع کیے ہوئے جہادی اور تکفیری کلچر کے نتیجے میں، محسوس کی گئی ہے ،کیونکہ اس تخریب وفساد کا نشانہ سب سے زیادہ خود مسلم ممالک بن رہے ہیں ۔اس کانفرنس کے اعلامیے سے روس اور ایران کی دلچسپی شام کے حالات کے تناظر میں واضح ہے اور چیچنیا میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جہادی فکر موجود ہے،اگرچہ جوہر دودائیف کے زوال کے بعد اسے دبادیا گیا ہے۔حال ہی میں ایک امریکی پروفیسر عمر نے بتایا کہ خلیفہ کے لیے قرشی ہونے کی شرط کے سبب داعش کے لوگ افغان طالبان کے امیر کی بیعت سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔
سعودی عرب کے علماء جو ایک وقت میں اس تصورِ جہاد کے حامی تھے اور وہاں سے اِن گروہوں کو اعانت بھی مل رہی تھی ،اب وہ برملا اِس سے برائت کا اعلان کر رہے ہیں اوراس طبقے کوتکفیری اور خارجی قرار دے رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گروزنی کی اس عالمی کانفرنس کو اختلاف کی خلیج کو وسیع کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ سعودی عرب سمیت تمام علمائے امت کو اِس سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے مُسلَّمہ اور مُشتَرکہ اصولوں پر اجماع کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔سعودی عرب جو اپنے دینی نظریات کے فروغ کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کرتا تھا،اب وہ خود اِن فسادیوں کے نشانے پر ہے ۔لہٰذا انہیں اب یہ مصارف دین اور امت کی وحدت کے لیے استعمال کرنے چاہییں اور امت میں تفریق کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ حقیقی معنی میں اتحادِ امت کا خواب اپنی تعبیر کو پاسکے ۔
تبصرہ لکھیے