ایک جاننے والے کا فون آیا۔ پریشان تھے۔ کہنے لگے میری بیٹی ساتویں جماعت میں ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتی ہے۔ اس عمر میں بھی اب بچوں کو پڑھائی کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو لازم بنا دیا گیا ہے ورنہ جو اسکول تعلیم دے رہا ہے اُس کا حصول ممکن نہیں۔ بچی کے والد کا کہنا تھا کہ وہ دفتر میں تھے تو گھر سے بیوی کا فون آیا اور کہنے لگی کہ بیٹی نے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق کے بارے میں ایک سوال کر دیا جس کے بارے میں اُس بچی کو سمجھ نہ تھی لیکن ماں کے لیے جواب دینا ممکن نہ تھا۔ ماں نے بچی سے پوچھا یہ سوال کس نے بتایا تو پتا چلا کہ انٹرنیٹ پر اسکول کے دیئے ہوئے کام کے متعلق مواد تلاش کر تے ہوئے خود سے بیہودہ سائٹس کے لنکس کمپیوٹر اسکرین کی سائیڈز پر ظاہر ہونے والے سسٹم کا نتیجہ ہے۔ بچی نے وہ لنکس تو نہ کھولے لیکن اُن پر درج ایک ایسی عبارت کو پڑھ کر ماں سے سوال کر دیا جس کا مطلب وہ بچی نہ جانتی تھی۔ پریشان باپ مجھ سے پوچھنے لگا کہ وہ ماں باپ اب کیا کریں۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں، ہمارے بچے بھی تعلیم میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن اُنہیں انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ایسے دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے جو ان کی تربیت، تعلیم اورکردار سب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
وہ صاحب کہنے لگے اسکول والوں سے کوئی پوچھے کہ اتنے چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کا استعمال کیوں لازم بنا دیا گیا۔ اب والدین کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہر وقت بچوں کے سر پر کھڑے رہیں کہ کہیں اُن کا بچہ خود سے کمپیوٹر اسکرین پر کھلنے والی بیہودہ سائٹس کو کھول نہ لیں۔ انٹرنیٹ کی حالت تو یہ ہےکہ آپ کوئی اخبار پڑھنے کے لیے سائٹ کھولے تو اسکرین کی سائٹ پر گندے اشتہارات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔انٹرنیٹ کو اس طرح کا بنا دیا گیا ہے کہ اس کو استعمال کرنے والے کو ہر وقت دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا مثبت کام چھوڑ کر بیہودگی کی طرف آئے۔ ان حالات میں بچے بچارے کیا کریں اور یہ وہ خطرہ ہےسے جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ ہم اپنے بچوںکو سمجھا سکتے ہیں، انہیں اچھے بُرے کی تمیز بتا سکتے ہیں لیکن جب گناہ کی دعوت کا انداز اتنا عام اور بے ہودگی پھیلانے کی کھلی چھٹی ہو تو خطرہ یہی ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات پڑیں گے اور اُن کی کردار سازی میں خربیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے وزارت تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سوچنا چاہیے لیکن میری نظر میں اس کا اصل علاج حکومت کے پاس ہے جس پر اُس کی توجہ نہیں۔
کتنے عرصہ سے میں یہ لکھ رہا ہوں، موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں سے اعلیٰ ترین سطح پر گزارشات کر چکا ہوں کہ خدارا پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام مخالف (گستاخی سے متعلق) اور جنسی مواد کو پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لیے مکمل بلاک کیا جائے لیکن افسوس نہ پچھلے حکمرانوں نے سنا نہ ہی موجودہ حکمرانوں نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔ حال ہی میں سائیبر کرائم کا قانون بنایا گیا جس کے متعلق میرا سب سے بڑا اعتراض ہی یہی تھا کہ اس قانون میں مقدس ہستیوں کی گستاخی اور جنسی بیہودگی جیسے سنگین جرائم کو قانون میں شامل ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے کوئی سزا رکھی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری حکومتیں ایسے معاملات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتیں باوجود اس کے کہ سب کو معلوم ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس گندگی اور بیہودگی کی تعلیم انٹرنیٹ کے ذریعے دی جاتی ہے اُس پر عمل کرنے کے معاشرہ میں جنسی کاروبار کے اڈوں کے ساتھ ساتھ منشیات اور جوئے کے اڈوں کی معاشرہ میں بھرمار ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ ایک خبر کے مطابق صرف لاہور شہر میں ایک ہزار نو سو چھ (1906) ایسے اڈے چل رہے ہیں جن میں جنسی کاروبار ہوتا ہے، منشیات بیچی جاتی ہیں اور جوا کھیلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گورننس اورحکومتی عمل داری کے لحاظ سے یہ بہترین جگہ ہے۔ اگر لاہور کی یہ حالت ہے تو باقی پاکستان کا کیا حال ہو گااس کا انداز ہ آپ لگا سکتے ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے سے یہ پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ہر روز تقریباً بارہ سو (1200) کم عمر بچے تمباکو نوشی کا آغاز کر تے ہیں۔ اس سروے میں ملک بھر کے اسکولوں کے تیرہ سے پندرہ سال کے آٹھ ہزار طلباء و طالبات کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے دس اشاریہ سات فیصد تمباکو نوشی کے عادی تھے جبکہ گیارہ فیصد نے بتایا کہ وہ بھی جلد ہی سگرٹ نوشی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ سروے میں شامل بچیوں میں سے بھی چھ فی صد سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا پائی گئیں۔ یعنی اب تو تعلیم دلوانا بھی رسک بن گیا اورا سکول کالج بھی بے حیائی اور نشے کو پھیلانے کا ذریعہ بن گئے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔ حکومت، پارلیمنٹ، عدالتیں کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ سب نظر ہی نہیں آتا جبکہ معاشرہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ہی نسل کی تباہی کا سامان بھی پیدا کر رہے ہیں اور تماشہ بھی دیکھ رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے